نسل پرستی صرف فٹبال ہی نہیں بلکہ کرکٹ میں بھی ہے، کرس گیل

امریکا میں سیاہ فام شہری کے قتل کے خلاف امریکا سمیت دنیا بھر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں اور اب کھیلوں کی برادری بھی سراپا احتجاج ہے۔ دنیا بھر کے کھیلوں سے جارج فلائیڈ کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور اب کرکٹر خصوصاً ویسٹ انڈین کرکٹرز نے بھی احتجاج کرتے ہوئے سیاہ فام امریکی شہری کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ سابق ویسٹ انڈین کپتان ڈیرن سیمی اور کرس گیل نے اس بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے کرکٹ سے بھی نسل پرستی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ڈیرن سیمی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر ہر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ امریکا میں ہوا اس کے بعد بھی اگر اس وقت دنیائے کرکٹ رنگ کی بنیاد پر کی جانے والی ناانصافی کے خلاف یکجا نہیں ہوتی تو آپ بھی اس مسئلے کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور دیگر کرکٹ بورڈ نہیں دیکھ رہے کہ مجھ جیسے لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کیا آپ مجھے جیسوں سے ہونے والی سماجی ناانصانی کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے، یہ صرف امریکا کا مسئلہ نہیں، یہ سیاہ فاموں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے اور اب خاموش رہنے کا وقت نہیں۔ پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز پشاور زلمی کے مینٹور نے کہا کہ سیاہ فام لوگ ایک عرصے سے مشکلات سے دوچار ہیں، میں سینٹ لوشیا میں ہوں اور اگر آپ مجھے اپنی ٹیم کا حصہ سمجھتے ہیں تو میں بھی بہت افسردہ اور مایوس ہوں، کیا آپ اس مقصد کی حمایت کر کے تبدیلی کا حصہ بنیں گے۔ سیمی کے ساتھ ساتھ جارح مزاج ویسٹ انڈین بلے باز کرس گیل نے بھی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کہا کہ اور لوگوں کی زندگی کی طرح سیاہ فاموں کی زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے، سیاہ فام لوگوں کو بے وقوف سمجھنا چھوڑ دیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ میں نے دنیا بھر میں سفر کیا اور سیاہ فام ہونے کی وجہ سے مجھے نسل پرستانہ جملوں کا سامنا کرنا پڑا، نسل پرستی صرف فٹبال ہی نہیں بلکہ کرکٹ میں بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چند ٹیموں میں سیاہ فام ہونے کی وجہ سے ان سے متعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا لیکن انہیں اپنے سیاہ فام ہونے پر فخر ہے۔ ادھر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے کہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ نسل پرستی کی مذمت کی ہے اور اسے کبھی بھی برداشت نہیں کیا، ضابطہ اخلاق کے تحت ناصرف کھلاڑی کو سزا دی جاتی ہے بلکہ معاملے کو بہتر انداز میں سمجھنے اور آگاہی دینے کے لیے اسے تعلیمی پروگراموں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ آئی سی سی نے کہا کہ ہم نے اس طرح کا رویہ کبھی برداشت نہیں کیا اور اس طرح کے عمل پر تاحیات پابندی تک کی بھی سزا ہے اور ہم اپنے اراکین کو بھی اس حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ کسی سے بھی امتیازی سلوک یا نسل پرستانہ رویے کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔

بشکریہ ڈان نیوز

مائیکل ہولڈنگ نسلی تعصب پر بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے

ویسٹ انڈیز کے معروف کرکٹر مائیکل ہولڈنگ نسلی تعصب پر بات کرتے ہوئے اپنے والدین کے ساتھ ہونے والے واقعے پر آبدیدہ ہو گئے۔ ویسٹ انڈیز کے 66 سالہ لیجنڈ کھلاڑی ساؤتھمپٹن میں ہونے والے ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے درمیان میچ سے قبل عالمی سطح پر نسلی تعصب کے خلاف جدو جہد ‘بلیک لائیوز میٹر’ (سیاہ فام افراد کی زندگی کی اہمیت) پر نجی نشریاتی ادارے اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ نجی نشریاتی ادارے کو انٹرویو کے دوران جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس لمحے انہیں کیسا لگا تھا تو ان کی آواز ٹوٹنے لگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘سچ کہوں تو یہ جذباتی لمحہ اس لیے پیش آیا کیونکہ میں اپنے والدین کے بارے میں سوچنے لگا تھا اور یہ خیال مجھے پھر سے آرہا ہے’۔

 وہ اپنی بات جاری رکھنے سے قبل ٹھہرے اور دم بھرا پھر کہا کہ ‘مجھے معلوم ہے کہ میرے والدین پر کیا گزری ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میری والدہ کے گھر والوں نے ان سے بات کرنا اس لیے چھوڑ دی تھی کہ ان کا شوہر بہت سیاہ تھا’۔ انہوں نے اپنے آنکھوں سے آنسو پوچھتے ہوئے کہا کہ ‘میں جانتا ہوں کہ ان پر کیا گزری ہے اور پھر اس کا سامنا مجھے بھی کرنا پڑا تھا’۔ انہوں نے سالوں نسلی تعصب کا سامنا کرنے کے بارے میں بتایا کہ جس میں وہ اور ان کے سفید فام دوست کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جنوبی افریقہ میں ایک ساتھ ہوٹل میں بکنگ نہیں کریں گے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘جب ہم اس طرح کے معاشرے میں نہیں رہتے ہیں تو ہم اس پر ہنستے ہیں اور کبھی کبھی میں اپنے دماغ میں خود کو برا تصور کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہوں لیکن میں ہمیشہ ہنستا، خود کو برا تصور کرتا اور آگے بڑھتا نہیں رہ سکتا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اب وقت آگیا ہے تبدیلی کا’۔ انہوں امید ظاہر کی کہ ادارہ جاتی نسلی تعصب کو ‘پردے کے پیچھے چھپایا نہیں جائے گا’ اور ایک بار پھر انہوں نے سیاہ تاریخ کے بارے میں بہتر تعلیم کے لیے زور دیا۔  انہوں نے کہا کہ ‘مجھے امید ہے کہ لوگ ٹھیک سے سمجھیں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور میں کہاں سے آرہا ہوں، میں 66 سال کا ہوں، میں نے یہ دیکھا ہے، میں اس سے گزر رہا ہوں اور میں نے دوسرے لوگوں کو بھی اس کا سامنا کرتے دیکھا ہے’۔ مائیکل ہولڈنگ کا کہنا تھا کہ ‘یہ اس طرح جاری نہیں رہ سکتا، ہمیں سمجھنا ہو گا کہ دوسرے بھی انسان ہی ہیں’۔ ٹیسٹ کے پہلے روز بارش کی وجہ سے میچ تاخیر کا شکار ہو گیا تھا، جس دوران مائیکل ہولڈنگ نے کہا کہ وہ ’’بلیک لائیوز میٹرز‘‘ کے مظاہروں میں شریک ہوئے۔ انہوں نے ایمی کوپر کے کیس کا حوالہ دیا جس نے نیویارک کے سینٹرل پارک میں ایک سیاہ فام شخص سے بحث کے بعد پولیس کو طلب کر لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس نے اس سیاہ فام شخص کو اپنی سفید رنگت کی دھمکی دی اور کہا کہ وہ پولیس کو فون کرنے جارہی ہے اور انہیں بتائے گی کہ وہاں ایک سیاہ فام شخص نے اسے دھمکایا ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جس معاشرے وہ رہ رہی تھی وہ اسے طاقت نہیں دیتی یا اسے یہ سوچنے کے لیے تیار نہیں کرتی کہ وہ گورے ہونے کی طاقت رکھتی ہے اور کسی سیاہ فام آدمی کے لیے پولیس بلانے کے قابل ہے تو وہ یہ کام کبھی نہ کرتی’۔ واضح رہے کہ امریکا سمیت دنیا بھر میں نسلی تعصب کے خلاف مظاہرے جاری ہیں اور دنیا بھرمیں لوگ سیاہ فام افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں نسلی تعصب کے خلاف مظاہرے گزشتہ  وقت شروع ہوئے جب امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر مینیا پولس میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت ہوئی۔

بشکریہ ڈان نیوز

صدر ایردوآن کے ساتھ پھر تصویر بنواؤں گا

جرمن قومی فٹبال ٹیم کے ترک نژاد سٹار کھلاڑی میسوت اوزل ترک صدر ایردوآن کے ساتھ تصویر اتروانے کے متنازعہ معاملے میں آخر بول ہی پڑے ہیں۔ اب تک خاموشی اختیار کیے رہنے والے اوزل نے کہا ہے کہ وہ ایسی تصویر پھر اتروائیں گے۔ جرمنی کے جنوبی شہر میونخ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق میسوت اوزل نے آج سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ ترکی میں ہونے والے حالیہ انتخابات سے قطع نظر وہ ویسے بھی ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ تصویر بنواتے اور اگر موقع ملا تو وہ دوبارہ بھی ایسی ہی تصویر بنوائیں گے۔

اپنے اس بیان کے ساتھ میسوت اوزل نے نہ صرف صدر ایردوآن کے ساتھ اپنی تصویر کا مکمل دفاع کیا ہے بلکہ پہلی بار انہوں نے اس موضوع پر اپنی اب تک کی خاموشی بھی توڑ دی ہے۔ اس سے قبل جرمنی میں ان کی اس تصویر کی وجہ سے ملکی میڈیا پر اور چند سیاسی حلقوں میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا تھا، جسے چند ناقد مبصرین نے فٹبال کی دنیا میں درپردہ نسل پرستانہ سوچ کا نام دینے کی کوشش بھی کی تھی۔ ٹوئٹر پر اپنے شائع کردہ پیغام میں میسوت اوزل نے اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے گریز کیا کہ جرمنی کے قومی فٹبال ٹیم میں وہ مستقبل میں بھی اپنے لیے جگہ کو کس طرح دیکھتے ہیں۔

میسوت اوزل نے ترک صدر کے ساتھ اپنی یہ تصویر اس سال مئی میں اتروائی تھی۔ اس بارے میں انہوں نے لکھا ہے، ’’اس تصویر کے ساتھ میں نے اپنے خاندان کے آبائی ملک کے اعلیٰ ترین نمائندے کے لیے عزت کا اظہار کیا۔‘‘ ساتھ ہی اوزل نے کہا کہ اس تصویر کے ساتھ انہوں نے رجب طیب ایردوآن کے لیے جس احترام کا اظہار کیا، اس کی وجہ ترکی میں ان کا صدارتی منصب تھا نہ کہ ایردوآن کی ذات۔ اوزل کے مطابق برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے بھی صدر ایردوآن سے ملی تھیں اور انہوں نے بھی ترک صدر کے ساتھ تصویریں بنوائی تھیں۔ ترک صدر ایردوآن خود بھی اپنی جوانی میں فٹبال کھیلتے رہے ہیں۔

ایردوآن کی میسوت اوزل سے پہلی ملاقات 2010ء میں برلن میں اس وقت ہوئی تھی، جب رجب طیب ایردوآن نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ مل کر جرمن اور ترک قومی ٹیموں کے مابین کھیلا جانے والا ایک فٹبال میچ دیکھا تھا۔ اس بارے میں اوزل نے ٹوئٹر پر اپنے ایک طویل بیان میں لکھا ہے، ’’تب (2010ء) سے اب تک ہم (صدر ایردوآن اور میں) کئی بار مل چکے ہیں اور مجھے اندازہ ہے کہ میری صدر ایردوآن کے ساتھ تصویر کی جرمن میڈیا میں بازگشت بڑی بلند رہی ہے۔ مجھ پر کئی حلقوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ اس تصویر کے بعد میں جھوٹ بولوں گا یا منافقت کروں گا، لیکن سچ یہ ہے کہ اس تصویر کے اتارے جانے کے پیچھے کوئی سیاسی سوچ یا ارادے نہیں تھے۔‘‘

ترک نژاد مسلمان میسوت اوزل کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ جرمنی کی قومی فٹبال ٹیم کے رکن بھی ہیں اور جرمنی میں بنڈس لیگا کے ایک سے زائد کلبوں کے لیے بھی کھیلتے رہے ہیں۔ بعد میں وہ یورپی کلب فٹبال کی سطح پر اسپین کی ریئل میڈرڈ ٹیم کے لیے بھی کھیلتے رہے ہیں اور آج کل انگلش فٹبال کلب آرسنل لندن سے وابستہ ہیں۔ ٹوئٹر پر اپنے مضمون میں 29 سالہ جرمن شہری میسوت اوزل نے اپنی ثقافتی جڑوں اور دوہری پہچان کے حوالے سے لکھا ہے، ’’میرے دو دل ہیں۔ ایک جرمن اور ایک ترک۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ان کی والدہ نے انہیں یہ سبق پڑھایا ہے، ’’اس بات کا احترام کرنا اور اسے کبھی نہ بھلانا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔‘‘

اس حوالے سے میسوت اوزل نے اپنی ٹویٹ کے آخر میں یہ بھی کہا، ’’اگر میں (صدر) ایردوآن سے ملاقات سے انکار کر دیتا، تو میرے لیے یہ ایسا ہی ہوتا، جیسے میں اپنی جڑوں سے انکار کر رہا ہوں۔‘‘

م م / ع ب / ڈی پی اے، ایس آئی ڈی

بشکریہ DW اردو