میلکم مارشل : جو صرف دو گیندوں میں بلے باز کی کمزوری پہچان لیتے تھے

کرکٹ کی دنیا ہمیشہ 18 اپریل کی احسان مند رہے گی۔ 18 اپریل سنہ 1958 کو میلکم مارشل بارباڈوس میں پیدا ہوئے۔ ان کی آمد سے کرکٹ کی دنیا مزید دلچسپ اور پُرجوش ہو گئی۔ دنیائے کرکٹ میں جب ویسٹ انڈیز کے تیز بولرز کا طوطا بولتا تھا اس زمانے میں میلکم مارشل کے ساتھ اینڈی رابرٹس، جوئل گارنر، مائیکل ہولڈنگ اور کولن کرافٹ سے دنیا بھر کے بلے باز خوفزدہ رہتے تھے۔ لیکن ان میں میلکم مارشل سب سے مختلف اور جدا تھے۔ میلکم مارشل جس طرح کے بولر تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ان خطرناک بولرز میں تیز ترین تھے۔ جب مارشل نے سنہ 1991 میں ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہا تو انھوں نے 81 ٹیسٹ میں 376 وکٹیں لے رکھی تھیں۔ ان کا بولنگ سٹرائک ریٹ 47 سے کم تھا جبکہ اوسط 21 سے کم۔ تاہم ان اعداد و شمار سے یہ انکشاف نہیں ہوتا کہ مارشل کتنے خطرناک بولر تھے۔

خوف کا دوسرا نام
در حقیقت سنہ 1983 سے 1991 تک مارشل دنیا بھر کے بلے بازوں کے لیے خوف کا دوسرا نام تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مارشل جتنے مہلک فاسٹ بولر تھے اتنا ہی اپنی گیندوں پر انھیں کنٹرول تھا۔ اگر آپ رفتار کے لحاظ سے انھیں ‘بروٹل’ (سفاک) کہتے ہیں تو لائن اور لینتھ کے معاملے میں انھیں ‘روتھ لیس’ یعنی بے رحم کہنا بے جا نہ ہو گا۔ اپنے بین الاقوامی کیریئر کے 13 سال میں مارشل صرف آٹھ سال ہی بین الاقوامی کرکٹ کھیل سکے۔ لیکن اس دوران انھوں نے پوری دنیا میں اپنے مداح بنائے۔ مارشل کے ساتھ کھیلنے والے بولر مائیکل ہولڈنگ نے اپنی سوانح عمری ‘نو ہولڈنگ بیک’ میں لکھا: ‘میرے خیال میں میلکم مارشل اور اینڈی رابرٹس دنیا کے تیز ترین بولرز تھے۔ میلکم رابرٹس سے تیز تھے۔ ہم اسے میکو پکارتے تھے۔ ‘میں نے مارشل کو سنہ 1979-80 کے دورہ آسٹریلیا سے پہلے دیکھا تھا۔ ان کا قد چھ فٹ سے کم تھا، لہذا ہمارا خیال تھا کہ وہ زیادہ تیز بولر نہیں ہوں گے لیکن ہمارے ساتھی کھلاڑی ڈیسمنڈ ہینز نے کہا تھا دیکھنا کہ وہ کتنا تیز ہے، وہ واقعی تیز ہے۔ بہت تیز ہے۔’

پاؤں پر وزن رکھتے تھے
مارشل اپنی کرکٹ پر کس قدر توجہ دیتے تھے اور وہ اپنے قد سے اونچے بولرز کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتاری سے گیند کس طرح پھینکتے تھے، اس کے متعلق مائیکل ہولڈنگ نے ایک دلچسپ بات بتائی۔ ہولڈنگ کے مطابق: ‘ایک بار جب ہم تاش کھیل رہے تھے اور کسی وجہ سے میکو کی فل پینٹ اوپر کھسک آئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے دونوں پیروں پر وزن کی پٹیاں لگا رکھی تھیں۔ میں حیرت زدہ تھا، میں نے پوچھا کہ یہ کیا لگا رکھا ہے تو میکو نے کہا کہ وہ ہر وقت اپنے پاؤں پر اضافی وزن رکھتے ہیں، یہاں تک کہ جب خریداری کرتے ہوں یا آرام کر رہے ہوں تو بھی۔ تاکہ ٹانگوں کے پٹھے زیادہ مضبوط ہوں۔’ ہولڈنگ اپنے ساتھی کرکٹر کی اس مشق پر حیران تھے۔ انھوں نے میلکم سے پوچھا کہ جب میچ کے دوران تم یہ سٹرپس کھولتے ہو تو کیسا محسوس کرتے ہو۔ میلکم مارشل نے ان سے کہا اس کے بعد ‘میں سارا دن دوڑتا رہ سکتا ہوں۔’

یہ مارشل کے کریئر کی محض ایک مثال ہے۔ اس وقت کرکٹ کی دنیا میں ٹیکنالوجی پر اس قدر زور نہیں دیا جاتا تھا۔ کوچنگ عملے کی بیٹری ایک، ایک کھلاڑی کے پیچھے نہیں ہوتی تھی، لیکن مارشل نے پریکٹس کے ذریعے خود کو مہلک بنانے کا طریقہ سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ جب وہ اپنے رن اپ سے دوڑ کر امپائر کے پاس سے گزرتے تو ان کی اپنی رفتار انتہائی تیز ہوتی تھی اور کندھے کے استعمال والے ایکشن کے ساتھ جب گیند ان کے ہاتھ سے نکلتی تو وہ گولی کی رفتار سے بیٹسمین کے پاس پہنچتی تھی۔ خواہ ان کی لیگ کٹر گیندیں ہوں یا اسٹمپ سے باہر سوئنگ کرنے والی گیندیں ہوں، بلے بازوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ مارشل اپنی بولنگ سے پوری طرح لطف اٹھاتے تھے۔ لہذا وہ وقت بے وقت اپنے باؤنسر سے بیٹسمینوں کی آزمائش کیا کرتے تھے۔

ان کے باؤنسروں کی درستی اتنی زیادہ تھی کہ زیادہ تر بیٹسمین ان کی گیندوں پر چوٹ کھا جاتے تھے۔ سامنے بیٹسمین کو پریشان دیکھ کر مارشل کو ایک قسم کی خوشی ہوتی تھی۔ جب وہ راؤنڈ دی وکٹ بولنگ کے لیے آتے تو ان کے باؤنسروں کی درستگی میں کافی اضافہ ہو جاتا تھا۔ انگلینڈ کے بلے باز مائیک گیٹنگ کی ناک مارشل کے باؤنسر سے ہی ٹوٹی تھی۔ پاکستان کے تیز بولر وسیم اکرم نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ‘میلکم مارشل کسی بھی بیٹسمین کی کمزوری کو صرف دو گیندوں میں پہچان جاتے تھے۔ یہی خصوصیت انھیں مارشل بناتی تھی۔’ مارشل نے جن 81 ٹیسٹ میں شرکت کی ان میں سے ان کی ٹیم 43 ٹیسٹ میں فاتح رہی اور انھوں نے ان جیتنے والے میچز میں 254 وکٹیں حاصل کیں۔ چار فاسٹ بولرز کے ساتھ کسی ایک بولر کا ایسا غلبہ کرکٹ کی دنیا میں شاید ہی دیکھا جائے۔

پردیپ کمار
بی بی سی ہندی، نئی دہلی

بشکریہ بی بی سی اردو

شعیب اختر بریٹ لی سے زیادہ تیز رفتار بالر تھے، مائیکل کلارک

آسٹریلیا کے موجودہ اور سابق کھلاڑی پاکستانی کرکٹرز کی تعریف کرنے لگے۔  آسٹریلیا کے سابق کپتان اور مایہ ناز بیٹسمین مائیکل کلارک نے اپنے ملک کے فاسٹ بالرز کے مقابلے میں پاکستان کے شعیب اختر کی تعریف کی ہے۔ آسٹریلیا کے دیگر بیٹسمینوں کی طرح شعیب اختر کی خطرناک بالنگ کا سامنا کرنے والے مائیکل کلارک نے کہا ہے کہ شعیب اختر کی بالنگ کی رفتار بریٹ لی سے بھی زیادہ تھی۔ مائیکل کلارک نے مزید کہا کہ شعیب اختر تیز ترین بالر تھے جن کا میں نے سامنا کیا۔ وہ 160kph کی رفتار سے بھی بالنگ کرا سکتے تھے اور مسلسل تین اوورز میں بھی شعیب تیز بالنگ کر سکتے تھے۔ آسٹریلیا کے سابق کپتان نے اپنی ہی ٹیم کے بریٹ لی، شاؤن ٹیٹ، مچل جانسن اور گیلیسپی کو فاسٹ بالر کہہ کر مخاطب کرنے کے بعد کہا کہ شعیب اختر ان سب سے زیادہ فاسٹ بالنگ کراتے تھے۔ واضح رہے کہ رواں ہفتے آسٹریلیا کے نمبر ون ٹیسٹ بالر پیٹ کمنز نے پاکستانی کپتان بابر اعظم کی بیٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مشکل ترین بیٹسمین قرار دیا تھا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کھلاڑی ہو جائیں ہوشیار، اسمارٹ گیند ہو گئی تیار

کھیل میں ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہے، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، لیکن کرکٹ کے کھیل میں اسمارٹ بال کا استعمال ایک انقلاب برپا کر سکتا ہے، کھیل کے لیے تیار کی گئی منفرد گیند جس میں لگی چپ سے بال کی رفتار، باؤنس، موومنٹ اور دیگر چیزیں باآسانی معلوم ہو سکیں گی۔ آسٹریلیا کی مشہور کھیلوں کے سامان تیار کرنے والی کمپنی کوکابورا نے کرکٹ کی گیند میں چپ نصب کی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کی گئی منفرد گیند میں موجود چپ کی مدد سے گیند کرواتے وقت اس کی اسپیڈ ، موومنٹ اور باؤنس و دیگر اعداد و شمار ٹھیک ٹھیک حاصل کیے جاسکیں گے۔ اسمارٹ گیند کی مدد سے امپائرنگ اور ڈی آر ایس میں بھی مدد لی جا سکے گی، صرف یہی نہیں بلکہ متنازع کیچز میں بھی درست مدد مل سکے گی۔ اسمارٹ گیند کو کرکٹ آسٹریلیا نے جونیئرز کی سطح پر استعمال کی منظوری دی ہوئی ہے اور امکان ہے جلد ہی اسمارٹ بال کو مختلف لیگز میں بھی استعمال کیا جا سکے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

اگر جاوید میانداد نہ ہوتا تو وسیم اکرم بھی نہ ہوتا

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے ساتھی کھلاڑی جاوید میانداد کی تعریف میں ایک پیغام شیئر کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ اگر جاوید میانداد نہ ہوتا تو یقیناً کوئی وسیم اکرم بھی نہ ہوتا۔ سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم نے سوشل میڈیا پر جاوید میانداد کے ساتھ لی گئی ایک یادگار تصویر شیئر کی اور ساتھ لکھا کہ ’یہ وہ لمحہ تھا کہ جب 1984 میں راولپنڈی میں یہ 17 سالہ نوجوان پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کیلئے منتخب ہوا۔ ‘ وسیم اکرم نے ٹیم میں شمولیت کا سہرا لیجنڈری بیٹسمین اور سابق کپتان جاوید میانداد کے سر باندھا اور لکھا کہ ’اگر جاوید میانداد نہ ہوتے تو وسیم اکرم نہ ہوتا۔

وسیم اکرم کا شمار کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین فاسٹ بالرز میں ہوتا ہے۔ وہ ون ڈے کرکٹ میں 500 وکٹیں لینے والے پہلے بالر تھے۔  اس سے قبل سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم نے آٹھویں نمبر پر آکر سب سے زیادہ رنز بنا کر عالمی اعزاز اپنے نام کرنے والے دن کو اپنی زندگی کا ناقابلِ فراموش دن قرار دیا تھا۔ وسیم اکرم ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑیوں میں شامل ہیں، انہوں نے 1996 میں زمبابوے کے خلاف شیخوپورہ ٹیسٹ میں ناقابلِ شکست 257 رنز بنا کر عالمی ریکارڈ اپنے نام کیا تھا جسے 23 برس گزر جانے کے بعد بھی کوئی اُن سے نہیں چھین سکا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کورونا وائرس کے سبب تھوک سے گیند چمکانے پر عبوری پابندی کی سفارش

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی کرکٹ کمیٹی نے کورونا وائرس کے پیش نظر کھیل میں نئی تبدیلیوں کی تجویز دیتے ہوئے لعاب سے گیند چمکانے پر عبوری طور پر پابندی کی سفارش کر دی ہے۔ آئی سی سی کی کرکٹ کمیٹی کی جانب سے کی گئی سفارشات میں سب سے اہم چیز تھوک سے گیند چمکانے پر پابندی کی تجویز دی ہے۔ آئی سی سی کرکٹ کمیٹی کے سربراہ اور سابق لیگ اسپنر انیل کمبلے نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر یہ سفارشات وقتی طور پر لاگو کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ محفوظ انداز میں کھیل کا آغاز کیا جا سکے انہوں نے کہا کہ ہم غیرمعمولی حالات سے گزر رہے ہیں اور کرکٹ کمیٹی نے اسی کو دیکھتے ہوئے یہ سفارشات کی ہیں تاکہ کرکٹ سے منسلک ہر شخص کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے کھیل کے حسن کو برقرار رکھا جا سکے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سفارشات آئی سی سی بورڈ کو بھیج دی گئی ہیں جو ایک ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ملاقات کرے گا جس میں ان سفارشات پر بات کی جائے گی۔ واضح رہے کہ آئی سی سی کی کرکٹ کمیٹی کا اجلاس بھی آن لائن منعقد ہوا جس میں سابق کرکٹرز مہیلا جے وردنے، راہول ڈراوڈ، اینڈریو اسٹراس، بیلنڈا کلارک، سری لنکن ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور امپائر رچرڈ ایلنگ ورتھ نے شرکت کی۔ اجلاس میں طبی ماہرین سے مشورے کے بعد خصوصی طور پر گیند کو تھوک سے چمکانے پر پابندی کی سفارش کی گئی اور کہا گیا کہ دیگر کھیلوں میں بھی میدان میں لعاب پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کیونکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ تھوک سے وائرس پھیل سکتا ہے۔

کمیٹی نے لعاب کی جگہ پسینے کو گیند کو چمکانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تھوک کے مقابلے میں گیند کو چمکانے کے لیے ایک محفوظ اور بہترین متبادل ہے۔ اجلاس کے دوران گیند کو چمکانے کے لیے ویسلین سمیت دیگر اشیا کے استعمال کو بھی زیر بحث لایا گیا جہاں آئی سی سی قوانین کے تحت ان اشیا کا استعمال کرنا بال ٹیمپرنگ کے زمرے میں آتا ہے اور کمیٹی نے اپنے مشاہدے میں کہا ہے کہ وقتی طور پر اس سلسلے میں قوانین میں ترمیم کئی نئی پیچیدگیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ اجلاس کے کے دوران ٹیسٹ میچز میں بھی نیوٹرل امپائرز کی جگہ مقامی امپائرز کے استعمال کی تجویز بھی پیش کی گئی کیونکہ دنیا بھر میں سفری پابندیوں کی وجہ سے امپائرز کا سفر کرنا مشکل کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سلسلے میں نیوٹرل امپائر دستیاب نہ ہونے کی صورت میں کچھ وقت کے لیے میزبان ملک کے امپائرز کی مدد لینے کی تجویز سے اتفاق کیا گیا۔

البتہ کمیٹی میں یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا کہ مقامی یا میزبان ملک کے امپائرز کی موجودگی سے جانبدار فیصلے ہونے کا خطرہ ہو گا اور اسی لیے کھیل کے ہر فارمیٹ میں موجودہ قوانین کے لحاظ سے ہر ٹیم کے لیے ایک اضافی ریویو کی سفارش بھی کی گئی ہے تاکہ کھیل کو شفاف بنایا جا سکے۔ تاہم فیفا کے قوانین کے برعکس آئی سی سی کی کرکٹ کمیٹی نے کھیل کے لیے کسی بھی متبادل کھلاڑی کو میدان میں اتارنے کی تجویز نہیں دی۔ فیفا نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر اپنے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب تمام ٹیمیں تین کی جگہ ایک میچ کے دوران پانچ متبادل کھلاڑیوں کا استعمال کر سکیں گی۔ آئی سی سی کے چیف میڈیکل ایڈوائزر ڈاکتر پیٹر ہارکورٹ نے کہا کہ کورونا کا ٹیسٹ باآسانی ڈیڑھ گھنٹے میں ہو سکتا ہے لہٰذا کرکٹ جیسے کھیل میں متبادل کھلاڑی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

بشکریہ ڈان نیوز

محمد عامر تم ہیرو تھے، ہیرو ہو اور ہیرو ہی رہو گے

پاکستان کے مایہ ناز فاسٹ بولر محمد عامر کی جانب سے صرف 27 سال کی عمر میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے کے اعلان نے دنیائے کرکٹ میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک طرف شائقینِ منفرد قدرتی صلاحیتوں کے حامل فاسٹ بولر کو ٹیسٹ کرکٹ میں عمدہ کارکرکردگی پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کر رہے ہیں تو وہیں دوسری طرف بیشتر سابق کرکٹرز عامر کے اس فیصلے پر حیران اور مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ ناز فاسٹ بولر وسیم اکرم نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ ’محمد عامر کا ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہونا میرے لیے کچھ حیرت انگیز ہے کیونکہ 27 سال کی عمر پر آپ اپنے کیرئیر کے عروج پر ہوتے ہیں۔

وسیم اکرم نے مزید لکھا کہ ’یہ ٹیسٹ کرکٹ ہی ہے جس میں بہترین ٹیموں کے خلاف آپ کی کارکردگی کو جانچا جاتا ہے۔ پاکستان آسٹریلیا کے خلاف آئندہ سیریز میں دو جبکہ انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ میچ کھیلے گا جہاں اسے عامر کی ضرورت ہو گی۔‘ سابق ٹیسٹ کرکٹر اور معروف کمنٹیٹر رمیض راجہ نے بھی عامر کی ریٹائرمنٹ پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے ٹویٹر پر لکھا کہ ’عامر کا 27 سال کی عمر میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہونا مایوس کن ہے۔ عامر کا فیصلہ پاکستان کرکٹ کی ضرورتوں کے مطابق نہیں کیونکہ پاکستان شدت سے ٹیسٹ کرکٹ میں بہتری کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ پیچھے ہٹنے نہیں بلکہ خدمت کرنے کا وقت تھا۔
عامر کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرنے والوں میں صرف پاکستانی کرکٹرز ہی نہیں بلکہ انڈین کرکٹ سٹارز بھی شامل ہیں۔

سابق انڈین کرکٹر اور کمنٹیٹر ہرشا بوگلے نے ٹویٹ کی کہ ’محمد عامر کے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے فیصلے نے ایک ایسے کیرئیر کو ختم کر دیا جس کی تعریف کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ جیسا تھا شاید ویسا نہ ہوتا۔ یہاں قدرتی صلاحیتوں کے مالک فاسٹ بولر کے لیے یہ سبق ہے کہ میدان سے باہر کیے گئے آپ کے فیصلے میدان میں بھی آپ کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘ کرکٹ کے تجزیہ نگار راہول ورما نے کہا کہ ‘عامر کا صرف 27 سال کی عمر میں اپنے کیرئیر کے عروج پر ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہونا بلاشبہ مایوس کن ہے۔‘ بلال نامی ایک ٹویٹر صارف نے عامر کے اس فیصلے کے جواب میں لکھا کہ ’میں آپ کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں مگر میں فلحال اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔

مجھے امید تھی کہ ایک دن آپ پھر اسی تیز رفتاری سے بولنگ کروائیں گے جس سے آپ 10 سال پہلے کرواتے تھے۔ بہرحال میری خواہش ہے کہ آپ دوسرے فارمیٹس میں اچھی کارکردگی دکھاتے رہیں۔‘ سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور شائقین کرکٹ نے مایوسی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ عامر کو ان کی کارکردگی پر خراج تحسین پیش کیا اور نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔ ع الف نام کے ایک ٹویٹر صارف نے عامر کی آسٹریلیا کے خلاف شاندار بولنگ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’جس طرح الیکشن سے پہلے کا عمران خان اور بعد کا دو مختلف اشخاص تھے۔ اسی طرح پابندی سے پہلے کا محمد عامر اور پابندی کے بعد کا عامر دو الگ انسان ہیں۔

نیازی نامی ایک ٹویٹر ہینڈل نے عامر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عامر تم ہیرو تھے، ہیرو ہو اور ہیرو ہی رہو گے۔‘ عثمان مہر نے ٹویٹ کی کہ ’ٹیسٹ کرکٹ آپ کو مس کرے گی۔ ون ڈے اور ٹی20 فارمیٹس کے لیے میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔ عامر یو بیوٹی۔‘ خیال رہے کہ محمد عامر نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ عامر نے پاکستان کرکٹ بورڈ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے اپنے سینے پر گولڈن اسٹار لوگو لگانے کا موقع دیا۔

بشکریہ اردو نیوز

لستھ ملنگا جیسا کوئی نہیں

کرکٹ کے شائقین کے سامنے جب بھی لستھ ملنگا کا نام لیا جائے تو وہ ان کے گھنگھرالے بالوں اور غیر روایتی بولنگ ایکشن کا ذکر کریں گے۔ بلے بازوں سے پوچھا جائے تو یقیناً وہ ان کے پیر توڑ یارکرز کی کہانیاں سنائیں گے جبکہ بولرز ضرور یہی کہیں گے کہ ان جیسا کوئی نہیں ہے۔ یہ درست بھی ہے کہ ملنگا جیسا کوئی نہیں ہے اور یہ بات انھوں نے اپنے آخری میچ کی پانچویں گیند پر باور کروائی جب انھوں نے بنگلہ دیش کے مایہ ناز بلے باز تمیم اقبال کو ان سوئنگنگ یارکر پر بولڈ کر دیا اور تین اہم وکٹیں حاصل کر کہ سری لنکا کو فتح سے ہمکنار کر دیا۔

ملنگا کے یارکرز
ایسا نہیں کہ بلے باز ملنگا کے یارکرز کی تیاری نہیں کرتے۔ ملنگا کو کھیلتے ہوئے بلے بازوں کے ذہن میں شاید یہ پہلی چیز ہوتی ہے۔ کرک وز کے مطابق ملنگا نے اپنے کریئر میں 500 سے زائد یارکرز کرائے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ یارکرز کرانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے پاس یارکرز کی مختلف اقسام موجود ہیں جن میں ایک خطرناک سلو یارکر بھی شامل ہے۔ لیکن اتنے سالوں بعد بھی حالیہ ورلڈ کپ میں ملنگا نے اس ہتھیار کے ذریعے انگلینڈ جیسی ٹیم کو چاروں شانے چت کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملنگا جیسا کوئی نہیں ہے۔

ملنگا کے کریئر کے اعداد و شمار
ملنگا نے اپنے ایک روزہ کریئر میں 226 ایک روزہ میچوں میں 28 کی اوسط سے 338 وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے اپنے ایک روزہ کریئر کا آغاز سنہ 2004 میں متحدہ عرب امارات کے خلاف ایک میچ سے کیا لیکن انھیں پہلی مرتبہ سنہ 2007 کے ورلڈ کپ میں شہرت حاصل ہوئی جب انھوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں چار گیندوں پر چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کہ عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ایک روزہ میچوں میں ملنگا کی سب سے اچھی کارکردگی 38 رنز کے عوض چھ وکٹیں لینا رہی۔ ریکارڈز کی بات کی جائے تو شاید انھیں ایک روزہ ورلڈ کپ نہ جیتنے کا افسوس رہے گا کیونکہ عالمی کپ مقابلوں میں ان کی کارکردگی عمدہ رہی ہے۔

ملنگا کے ریکارڈز
اگر بالوں کے سٹائل تبدیل کرنے کا بھی کوئی ریکارڈ ہوتا تو وہ ضرور ملنگا کے پاس ہوتا۔ زیادہ تر شائقین کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ ملنگا کے بال ہمیشہ سے ہی ایسے نہیں تھے۔ کریئر کے آغاز میں ان کے بالوں کا انداز روایتی تھا البتہ آہستہ آہستہ ان کی بولنگ کی طرح یہ بھی غیر روایتی ہونے لگا۔ چار عالمی کپ مقابلوں میں 56 وکٹیں حاصل کر کے ملنگا سب سے زیادہ وکٹیں لینے والوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ ملنگا کے پاس سب سے زیادہ تین مرتبہ ایک روزہ میچوں میں ہیٹرک کرنے کا اعزاز بھی موجود ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی ملنگا ایک میچ ونر تھے۔ سری لنکا نے ملنگا کی موجودگی میں جن میچوں میں کامیابی حاصل کی ان میں ملنگا 24.7 کے سٹرائک ریٹ کے ساتھ سرِفہرست رہے۔

انھوں نے بطور ٹی ٹوئنٹی کپتان سری لنکا کو سنہ 2014 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کریئر کے آخر میں انھیں فٹنس کے مسائل درپیش تھے جن کی وجہ سے وہ اتنی اچھی کارکردگی نہیں دکھا پائے جس کی ان سے امید کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 2015 سے سنہ 2019 کے عرصے میں ان کی بولنگ اوسط صرف 36 ہی رہی۔ تاہم حالیہ ورلڈ کپ کے آغاز میں وہ ایک مرتبہ پھر سے اپنے ہی رنگ میں نظر آئے اور انھوں نے لڑکھڑاتی ہوئی سری لنکن ٹیم کو سہارا دیے رکھا۔ سلنگا ملنگا کے نام سے جانے جانے والے اس بولر نے سری لنکا کے غیر روایتی کھیل پیش کرنے کی وراثت کو آخری دم تک سنبھالے رکھا لیکن سوال یہ ہے کہ اب اس کا وارث کون بنے گا؟

محمد صہیب
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

بال ٹیمپرنگ ہوتی کیسے ہے؟

بال ٹیمپرنگ کا معاملہ گذشتہ چند دن سے کرکٹ کی دنیا میں ایک مرتبہ پھر زیرِ بحث ہے لیکن دراصل یہ ہے کیا ؟ جنوبی افریقہ کے خلاف تیسرے کرکٹ ٹیسٹ میچ کے دوران آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے کپتان سٹیو سمتھ نے اعتراف کیا کہ انھوں نے گیند سے چھیڑ چھاڑ کا منصوبہ بنایا تھا۔ گیند سے اس چھیڑ چھاڑ یا بال ٹیمپرنگ کا فائدہ کیا ہوتا ہے۔ جانیے کرکٹ کے ماہر سائمن ہیوز کی زبانی۔

ریورس سوئنگ کیا ہوتی ہے؟
سوئنگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ روایتی سوئنگ جس میں بولر گیند کو ایک طرف سے چمکاتا ہے تاکہ وہ ایک جانب گھومے۔ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا میں زیادہ تر کوکابرا گیند استعمال کی جاتی ہے جس کی چمک زیادہ دیر برقرار نہیں رہتی اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بولر ریورس سوئنگ کی کوشش کرتے ہیں۔ ریورس سوئنگ کے لیے ضروری ہے کہ گیند کو ایک طرف سے جس حد تک ممکن ہو کھردرا اور خشک رکھا جائے۔ اس کے نتیجے میں جب بولر گیند پھینکتا ہے تو ہوا کھردری سطح سے رگڑ کھاتی ہے اور گیند اپنی عمومی سوئنگ کے راستے سے ہٹ کر دوسری جانب گھوم جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے ریورس سوئنگ کہا جاتا ہے۔

جب گیند ریورس سوئنگ ہو تو کیا ہوتا ہے؟
پاکستانی فاسٹ بولر عمران خان وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے مجھے نیٹ پریکٹس کے دوران ریورس سوئنگ کر کے دکھائی اور دکھایا کہ گیند سے چھیڑچھاڑ کیسے کی جاتی ہے۔ انھوں نے کٹ بیگ سے ایک پرانی گیند لی، کھردری جانب پر کوارٹر سیم کو ابھارا اور گیند ایک بومیرنگ کی مانند گھومی۔
کبھی کبھار میچوں میں جب کچھ کام نہیں کر رہا ہوتا تھا تو میں نے یہ حربہ آزمایا جو کہ یقیناً کھیل کے اصولوں کے سو فیصد خلاف تھا لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ شاید میں اس کا ماہر نہیں تھا۔

کیا گیند قدرتی طور پر کھردری ہو سکتی ہے؟
کراس سیم گیندیں یعنی ایسی گیندیں کرنا جن میں ٹپہ سیم کی جگہ چمڑے کا لگے یا گیند کو میدان میں ہوا میں پھینکنے کی بجائے زمین پر پھینکنے سے اس بات کی ضمانت نہیں ملتی کہ گیند ایک جانب سے ہی کھردری ہو گی۔ اس لیے بولر اور فیلڈر اس کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ دانستہ طور پر گیند پر کیلوں والے جوتے رکھنے یا اسے ناخن، بوتل کے ڈھکن یا ریگمال سے کھرچنے جیسی حرکتیں کرتے ہیں۔ گیند کی شکل بگاڑنے کا قانونی طریقہ بس یہی ہے کہ آپ اسے ایک برے سپنر کو تھما دیں۔ اسے لگنے والے چھکے جب کنکریٹ سٹینڈز سے ٹکرائیں گے تو یقیناً گیند کو ویسا نقصان پہنچ جائے گا جس کی خواہش فاسٹ بولر کو ہو گی۔

اگر گیند قدرتی طور پر کھردری ہو سکتی ہے تو ٹیمپرنگ کی نشاندہی کیسے ممکن ہے؟ 1990 کی دہائی کے اواخر میں جب پرانی گیند سے ریورس سوئنگ نے مقبولیت حاصل کی تو کچھ بولر گیند کی کھردری سطح پر موجود قدرتی نشانات سے زیادہ بہتر انداز سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوئے۔ اگر کھلاڑی بال ٹیمپرنگ کرتا ہوا پکڑا نہ جائے تو گیند پر موجود قدرتی اور انسان کے بنائے گئے نشانات میں فرق تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ میں نے اس گیند کا جائزہ لیا تھا جس سے امپائرز کے مطابق 2006 میں اوول کے میدان میں پاکستانی کھلاڑیوں نے چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ میں نے اس معاملے میں بولرز کا دفاع کیا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ گیند پر موجود خراشیں قدرتی طور پر نہیں پڑی تھیں اور کسی پاکستانی کھلاڑی کو کیمرے پر گیند سے چھیڑ چھاڑ کرتے نہیں پایا گیا تھا۔

کیا آسٹریلیا کی کوششیں کامیاب ہوتیں؟
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ٹیپ کے ٹکڑے پر جمی مٹی گیند پر رگڑنے سے اس کے رویے پر کتنا فرق پر سکتا تھا۔ یہ خطرہ یقیناً مول لینے کے قابل نہیں تھا اور اب یقیناً آسٹریلوی کھلاڑیوں کو اس کا احساس ہو گیا ہے۔

کیا بال ٹیمپرنگ کر کے بچ نکلنا آسان ہے؟
آج کل کی عالمی کرکٹ میں ایسا ناممکن کے برابر ہے۔ ایک میچ کے دوران 30 کیمرے آپ پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور امپائر باقاعدگی سے گیند کا معائنہ کرتے رہتے ہیں۔ کرکٹ کا کھیل تنازعات کا شکار رہا ہے لیکن اس کے نام کے ساتھ ہمیشہ یہی چیز وابستہ رہی ہے کہ اس میں لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور بہتر رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو