یاسر شاہ ٹیسٹ میں تیز ترین 200 وکٹ لینے والے بولر بن گئے

دنیا کے مایہ ناز اسپنر یاسر شاہ نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں تیز ترین 200 وکٹیں لینے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ یاسر شاہ نے 82 سال پہلے آسٹریلوی بولر سی وی گریمٹ کا تیز ترین 200 وکٹیں لینے کا ریکارڈ توڑ کر یہ اعزاز اب اپنے نام کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں یاسر نے بہت سے ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں جن میں سے ایک اننگز میں 8 شکار سمیت ٹیسٹ میں 14 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنا بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ دنیائے کرکٹ میں وکٹوں کی تیزترین سنچری بنانے والوں میں بھی یاسر شاہ کا دوسرا نمبر ہے۔ انہوں نے یہ اعزاز 33 ٹیسٹ کھیل کر حاصل کیا ہے ، اس سے قبل آسٹریلوی لیگ اسپنر کلیری گرمٹ نے 1936 میں 36 ٹیسٹ میچز میں 200 وکٹیں مکمل کی تھیں۔

شین وارن نے یاسر شاہ کی تعریفوں کے پل باندھ دیے

سابق آسٹریلوی کرکٹر شین وارن قومی لیگ اسپنر یاسر شاہ کی بولنگ کے گرویدہ ہو گئے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے سابق مایہ ناز لیگ اسپنر شین وارن نے نیوزی لینڈ کے خلاف ناقابل یقین بولنگ اسپیل کروانے پر یاسر شاہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پہلی اننگز میں زبردست بولنگ کرواتے ہوئے ایک بہترین اسپیل کیا، بہت اعلیٰ، ایسے ہی صبر کے ساتھ بولنگ کرواتے رہو۔

Congrats to my man @Shah64Y – what a terrific game you had & what a spell that was in the 1st innings, very special. Watching you spin a web bought me a lot of joy and a big smile buddy. Well done. Keep it up and stay patient my friend #spintowin
— Shane Warne (@ShaneWarne) November 28, 2018

سابق آسٹریلوی اسپنر نے یاسر شاہ کو بہترین بولنگ کروانے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یاسر شاہ کی اسپن بولنگ سے بہت متاثر ہوا اور بے حد خوشی ملی، ایسے ہی بولنگ کرواتے رہو اور مزید کامیابیاں سمیٹتے رہو۔

یاسر شاہ مسلسل پانچ ٹیسٹ میچوں میں پانچ وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے سپنر

پاکستان کے سپنر یاسر شاہ ٹیسٹ میچ کی تاریخ کے پہلے سپنر بن گئے ہیں جنھوں نے مسلسل پانچ میچوں میں کسی ایک اننگز میں پانچ یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کی ہوں۔ یاسر شاہ ٹیسٹ میچوں کی تاریخ میں یہ سنگِ میل حاصل کرنے والے پہلے سپنر ہیں۔ ان کے علاوہ تین بولرز یہ اعزاز حاصل کر چکے ہیں لیکن وہ تینوں فاسٹ بولرز تھے۔ انگلینڈ کے سڈنی بارنز کے پاس 1912-14 میں سات ٹیسٹ میچوں میں مسلسل پانچ یا زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ ہے۔
دوسرے نمبر پر آسٹریلیا کے چارلی ٹرنر ہیں جنھوں نے 1887-1888 میں چھ مسلسل ٹیسٹ میچوں میں پانچ یا زائد وکٹیں حاصل کیں جبکہ تیسرے نمبر پر انگلینڈ ہی کے ایلک بیڈسر ہیں جنھوں نے 1952-53 میں چھ مسلسل ٹیسٹ میچوں میں پانچ یا اس سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔

یاسر شاہ اب تک مجموعی طور پر 13 بار ایک اننگز میں پانچ یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کر چکے ہیں جبکہ دو مرتبہ انھوں نے ایک ٹیسٹ میچ میں دس یا اس سے زائد وکٹیں حاصل کی ہیں۔ وہ اپنا 28 ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں اور اب تک 163 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔ انھوں نے 21 اپریل کو کنگسٹن میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میچ میں دوسری اننگز میں 63 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کیں۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف برج ٹاؤن میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں انھوں نے 94 رنز کے عوض سات وکٹیں حاصل کیں۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف روزیو میں کھیلے جانے والے اگلے ہی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 92 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ سری لنکا کے خلاف جاری سیریز میں ابو ظہبی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں یاسر شاہ نے 51 رنز کے عوض پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ اپنے لگاتار پانچویں ٹیسٹ میں دبئی میں جاری ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں یاسر شاہ نے 184 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کی ہیں۔

 

یاسر شاہ کو سانس لینے دیں

 ڈیبیو سے اب تک یاسر شاہ 26 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ ابوظہبی میں جاری میچ ان کے کریئر کا 27 واں میچ ہے، جس میں انھوں نے اپنے کریئر کی 150 ویں وکٹ حاصل کر کے تیز ترین 150 وکٹوں کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔ یاسر شاہ میں وہ تمام گن موجود ہیں کہ آج سے دس سال بعد وہ پاکستان کے کامیاب ترین سپنر اور شاید سب سے زیادہ ٹیسٹ وکٹیں لینے والے بولر ہوں۔ لیکن کیا کسی نے غور بھی کیا ہے کہ تھنک ٹینک کے تجربات کا یاسر شاہ پہ کیا اثر پڑ رہا ہے؟

ابوظہبی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں یاسر شاہ نے 57 اوورز پھینکے۔ یاد رہے ابھی میچ کی دوسری اننگز باقی ہے۔ اس سے پہلے ڈومنیکا میں بھی انھیں 57 اوورز پھینکنا پڑے تھے۔ بظاہر دیکھا جائے تو سپنر کے لیے یہ کوئی غیر معمولی ورک لوڈ نہیں ہے۔ مرلی دھرن ایک دن میں 40 اوورز بھی پھینک لیا کرتے تھے لیکن ایسا شاذ ہی ہوا کرتا تھا۔ یاسر کے مقابلے میں شین وارن کے کیریئر کو دیکھا جائے تو وارن فی میچ لگ بھگ 44 اوورز پھینکا کرتے تھے جب کہ کل کے 57 اوورز کے علاوہ یاسر اب تک فی میچ 54 اوورز پھینک چکے ہیں۔

ہم سب آگاہ ہیں کہ پچھلے ایک سال سے یاسر مختلف فٹنس مسائل کا شکار ہیں، ایک بار غلطی سے ممنوع دوائیں بھی کھا بیٹھے، آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں اپنے کیریئر کے بدترین اعداد بھی دیکھ چکے، حتیٰ کہ حالیہ سیریز سے قبل سکواڈ کا اعلان صرف اسی لیے موخر کیا جاتا رہا کہ یاسر شاہ کی فٹنس کی تصدیق ہو سکے۔ اور ان حالات کے بعد جب یاسر شاہ میدان میں اترتے ہیں تو ابوظہبی کی چلچلاتی دھوپ میں ان سے 57 اوورز پھینکوائے جاتے ہیں۔ جب کہ پارٹ ٹائم آپشن اظہر علی سے ایک بھی اوور نہیں کروایا جاتا اور جب 57 اوورز پھینک کر وہ ڈریسنگ روم پلٹتے ہیں تو انہی کے بولنگ کوچ یہ فرماتے پائے جاتے ہیں کہ اس وکٹ پہ ایک ریگولر سپنر ہی کافی تھا۔ بھئی اگر ایک سپنر ہی کافی تھا تو 57 اوورز کسی فاسٹ بولر سے کروا لیتے۔

اور ستم ظریفی یہ ہے کہ پچھلے چھ سال میں ہوم گراونڈز پہ ناقابل شکست رہنے والی ٹیم نے کبھی بھی صرف ایک سپنر پہ اکتفا نہیں کیا تھا، ہمیشہ دو ریگولر سپنرز کھلائے جاتے تھے۔ تھنک ٹینک سے دست بستہ عرض ہے کہ حضور! ٹیم کو ینگ بنانے کی کوششیں ضرور جاری رکھیے مگر یہ مت بھولیے کہ یاسر شاہ لمبی ریس کے گھوڑے ہیں اور اگر ان کا ہاتھ بٹانے کو اور کوئی آل راؤنڈر نہیں مل رہا تو 50 ٹیسٹ کا تجربہ اور یو اے ای کی وکٹس پہ بہترین ریکارڈ رکھنے والے حفیظ میں کیا برائی ہے؟

سمیع چوہدری
کرکٹ تجزیہ کار
 

یاسر شاہ ٹیسٹ کی تاریخ میں تیز ترین 150 وکٹیں لینے والے اسپنر

یاسر شاہ ٹیسٹ کی تاریخ میں سب سے تیز ترین 150 وکٹیں لینے والے اسپنر بن گئے، انہوں نے یہ کارنامہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ابوظبی ٹیسٹ کے پہلے روز سرانجام دیا۔ قومی کرکٹ ٹیم کے اسپنر یاسر شاہ نے 150 وکٹیں لینے کا کارنامہ 27 ویں ٹیسٹ میں حاصل کیا، یاسر شاہ سے قبل آسٹریلیا کے کلیری گریمیٹ نے 28 ٹیسٹ میچوں میں 150 وکٹیں لی تھیں۔ اس سے قبل دنیائے کرکٹ کے5 بولرز نے یہ کارنامہ 29 ٹیسٹ میچز میں سر انجام دیا، ان بولرز میں پاکستان کے سعید اجمل، انگلینڈ کے بوتھم، بھارت کے روی چندرن، جنوبی افریقا کے ڈیل اسٹین اور جنوبی افریقا کے ہی ٹے فیلڈ شامل ہیں۔
 

دبئی کا تاریخی ٹیسٹ پاکستان کے نام

مصباح الحق کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے تاریخی ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچ میں تاریخی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز کو 56 رنز سے شکست دے کر سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کرلی۔ اظہرعلی نے پہلی اننگز میں ناقابل شکست رہتے ہوئے اپنے کیریئر کی بہترین اننگز 302 رنز بنائے تھے جس کی بدولت پاکستان نے 3 وکٹوں پر 579 رنز پر پہلی اننگز ڈیکلیئر کردی تھی۔
یاسر شاہ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلی اننگز میں تاریخی باؤلنگ کرتے ہوئے ایشیا اور پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین 100 وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا جبکہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں یہ اعزاز پانے والے مشترکہ طورپر دوسرے کھلاڑی بنے۔ یاسر نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں 85 سال بعد 17 میچوں میں 100 وکٹیں حاصل کرکے اپنا نام عظیم باؤلرز کی فہرست میں شامل کرلیا۔

 

ایک’ کُول‘ کپتان کی حوصلہ مند ٹیم

آج کا دن لندن کے سینٹ جانز وُڈ کے علاقے میں ایک ایسا دن تھا کہ جب آپ کسی
کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ سینٹ جانز وُڈ میں واقع دنیائے کرکٹ کے سب سے تاریخی میدان میں آج پاکستان اپنی اس فارم میں نظر آیا جو دنیا بھر میں اس ٹیم کی پہچان ہے، یعنی وہ پاکستانی ٹیم جس میں مہارت بھی ہوتی ہے، چالبازی بھی، جس میں گھورتی آنکھیں بھی ہوتی ہیں اور مسکراہٹیں بھی اور خوش قسمتی کے ساتھ ساتھ خطروں سے کھیلنے کا حوصلہ بھی ہوتا ہے۔

آج کرکٹ کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی میچ جس میں تین بڑی ٹیموں (آسٹریلیا، انڈیا اور انگلینڈ) میں سے کوئی ٹیم نہ کھیل رہی ہو، اسے کوئی میچ ہی نہیں سمجھتا۔ اس کے بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوہ ہمالیہ سر کیا ہو لیکن کرکٹ کی دنیا اس وقت تک اس کی تعریف نہیں کرتی آپ کوگھاس نہیں ڈالتی جب تک آپ ان تین بڑی ٹیموں میں سے کسی کو نہ ہرائیں۔
دنیا کی ساری توجہ انھی تین ممالک پر مرکوز رہتی ہے اور کرکٹ سے منسلک سارا پیسہ بھی ان ہی ممالک میں ہے۔

مصباح الحق نے اپنی ٹیم کی قیادت اس وقت سنبھالی جب یہ ٹیم آخری مرتبہ لارڈز کے میدان میں کھیلی تھی۔ یہ ٹیم متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں ایک ناقابل شکست ٹیم بن چکی ہے، لیکن اس کے باوجود اسے زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ اس لحاظ سے پاکستان کا یہ دورہ انگلینڈ اہم ہونا تھا کیونکہ اس دورے میں انھیں یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستانی ٹیم بھی ایک ٹیم ہے۔ اگر یہ ٹیم انگلینڈ سے جیت کر دکھا دیتی ہے تو پھر اسے تسلیم کیا جائے گا اور اس کی تعریف کی جائے گی۔ مصباح کی حالیہ ٹیم کی تشکیل سنہ 2014 میں اس وقت ہونا شروع ہوئی تھی جب سعید اجمل اور محمد حفیظ پر مکمل پابندی لگ گئی اور پاکستان کا بالنگ اٹیک بالکل بدل کر رہ گیا تھا۔ تب پاکستان نے اجمل کی جگہ جس بولر کو ٹیم میں شامل کیا وہ فوراً ہی دنیا کا بہترین سپنر بن گیا۔

ان دنوں مصباح کے پاس ٹیم میں شامل کرنے کے لیے تیز بالر بہت کم تھے لیکن اس دوران راحت علی اور عمران خان دونوں نے محنت جاری رکھی اور اپنی مہارت میں اضافہ کرتے رہے اور پھر ایک سال بعد وہاب ریاض کی شکل میں مصباح کو ایک اور اچھا تیز بولر مل گیا، ایک ایسا بولر جو مخالت بیٹنگ لائن کو اُڑا کر رکھ سکتا ہے۔ اور اس کے بعد محمد عامر ٹیم میں واپس آگئے اور پاکستان کے بولنگ اٹیک میں یکدم تیزی آگئی۔ پاکستان کے اس بولنگ اٹیک کے لیے انگلینڈ کی ساری ٹیم کو آؤٹ کرنے کے لیے صرف ایک دن کافی تھا۔ آج جس طرح پاکستانی بولر ایک ٹیم کی شکل میں کھیلے، اسے دیکھ کر لطف آگیا۔
انگلینڈ کی تمام وکٹیں چوکے، چھکے لگاتے ہوئے نہیں گریں، بلکہ ہر وکٹ گرنے سے پہلے کی گیندوں پر انگلینڈ کے بلے باز کوئی رن نہیں بنا پائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے انگلینڈ کے نئے آنے والے بلے باز کو آؤٹ کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ کارگر ثابت ہوا۔ یہی وہ پاکستانی ٹیم ہے جس سے ایک دنیا محبت کرتی رہی ہے۔ ایک ایسی ٹیم جو مخالف بلے باز کو جب تک پویلین واپس نہیں بھیج دیتی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اس کے باوجود آج پاکستان کی جو ’روایتی‘ ٹیم ہم نے لارڈز میں دیکھی اس میں ایک فرق واضح تھا اور وہ یہ کہ اس ٹیم کی کپتانی مصباح کے ہاتھ میں تھی۔
یہ سال کپتان کے لیے زبردست سال رہا ہے۔ اس سال کے شروع میں انھوں نے پی ایس ایل کی پہلی ٹرافی جیتی اور سال کے آخر میں آخر کار انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ اتنی خوبصورت داڑھی میں بہت ’ُکول‘ لگتے ہیں۔ پاکستان یہ میچ اسی وقت جیت گیا تھا جب سینچری بنانے کے بعد کپتان نے میدان میں ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تھے، کیونکہ اپنے کپتان کی خوشی اور ان کا اعتماد دیکھ کر ٹیم کے حوصلے مزید بلند ہو گئے تھے۔ اسی لیے میچ جیتنے کے بعد جب ساری ٹیم نے ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تو اس پر کسی کو بھی زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔
یہ لمحہ واقعی بہت خوبصورت، حیرت انگیز اور مسرت سے بھرپور لمحہ تھا۔
چھ سال پہلے مصباح الحق سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک ٹوٹی پھوٹی ٹیم کو آ کر سنبھالیں اور آج چھ سال بعد انھوں نے پاکستان کو ایک ایسی ٹیم دے دی ہے جو ماضی کی کسی بھی بہترین پاکستانی ٹیم سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہے۔
احمر نقوی
سپورٹس تجزیہ کار

بیس برس بعد پاکستانی بولر عالمی رینکنگ میں سرفہرست

انگلینڈ کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میچ میں دس وکٹیں لینے والے پاکستانی لیگ سپنر
یاسر شاہ آئی سی سی کی ٹیسٹ بولروں کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر آ گئے ہیں۔ یاسر شاہ نے انگلینڈ کے خلاف پہلی اننگز میں 72 رنز کے عوض چھ وکٹیں اور دوسری اننگز میں 69 رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس شاندار پرفارمنس کے باعث وہ 32 پوائنٹس حاصل کر کے رینکنگ میں چوتھے نمبر سے پہلے نمبر پر آ گئے ہیں۔ یاسر شاہ تقریباً 20 سال میں پہلے پاکستانی بولر ہیں جو آئی سی سی کی رینکنگ میں سرفہرست آئے ہیں۔

اس سے قبل 1996 میں لیگ سپنر اور پاکستان کے موجودہ بولنگ کوچ مشتاق احمد آئی سی سی کی درجہ بندی میں پہلے نمبر آئے تھے۔ یاسر شاہ گذشتہ 11 برس میں ایسے پہلے لیگ سپنر بھی ہیں جو اس درجہ بندی میں سب سے اوپر پہنچے ہیں۔ ان سے قبل آسٹریلیا نے شین وارن سنہ 2005 میں دنیا کے بہترین ٹیسٹ بولر قرار دیے گئے تھے۔ آئی سی سی رینکنگ کے مطابق یاسر شاہ 878 پوائنٹس کے ساتھ پہلے اور انڈیا کے روی چندرن ایشون 871 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں جبکہ انگلینڈ کے جیمز اینڈرسن کا نمبر تیسرا ہے۔

آئی سی سی کی پریس ریلیز کے مطابق 30 سالہ یاسر شاہ کے پوائنٹس میں مزید اضافے کا امکان ہے کیونکہ وہ ابھی کوالیفائنگ پیریڈ میں ہیں۔ واضح رہے کہ بولر کی فُل رینکنگ اس وقت کی جاتی ہے جب وہ 100 وکٹیں حاصل کر لے۔

26 اکتوبر 2014 کو اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے یاسر شاہ نے اس وقت 13 ٹیسٹ میچوں میں 86 وکٹیں حاصل کی ہیں جو کہ اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔
آئی سی سی کی درجہ بندی میں یاسر شاہ کے علاوہ پاکستان کے راحت علی 35 ویں نمبر سے 32 ویں نمبر جبکہ چھ سال بعد انٹرنیشنل ٹیسٹ کھیلنے والے محمد عامر 93 ویں نمبر پر ہیں۔
جہاں تک بیٹنگ کی رینکنگ کی بات ہے تو پاکستان کے اسد شفیق 13 ویں سے 11 ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ انھوں نے لارڈز ٹیسٹ میں 73 اور 49 رنز سکور کیے۔
پاکستان کے کپتان مصباح الحق اپنی سنچری کے باعث 10 ویں سے نویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں جبکہ سرفراز احمد 17 ویں پوزیشن پر آ گئے ہیں۔

لارڈز کی تاریخی جیت ایدھی کے نام

پاکستانی کپتان مصباح الحق نے انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی کو
فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کے نام کیا ہے۔ بی بی سی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے مصباح الحق نے کہا کہ’ ایدھی صاحب نے جو ہمارے لیے کیا ہے، کامیابی ان کے نام کرنا پاکستانی قوم کی جانب سے انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہے۔‘انھوں نے کہا کہ لارڈز میں جیت بحیثیت کپتان ان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ ’لارڈز کے تاریخی گراؤنڈ میں جیتنا کسی بھی کپتان کے لیے ایک سپیشل وکٹری ہوتی ہے اور میرے لیے بھی آج کا دن تاریخی ہے۔‘

بعدازاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصباح الحق نے توقع ظاہر کی کہ پاکستانی ٹیم سیریز کے اگلے میچز میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔
مصباح الحق نے یہ بھی کہا کہ ہم جیت تو گئے ہیں تاہم ہمیں بیٹنگ میں ڈسیپلن کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً شارٹس سلیکشن کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔‘پاکستان میں ٹیلنٹ ہے ہی نہیں شاہد آفریدی کے اس بیان پر مصباح الحق نے کہا کہ یہ آفریدی کا ذاتی تجزیہ ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں موجود ٹیلینٹ کو ورلڈ کلاس لیول پر لانے کے لیے مزید پالش کرنے کی ضرورت ہے۔

لارڈز ٹیسٹ کے ٹرننگ پوائنٹس کونسے تھے؟

اس سوال کےجواب میں مصبالح الحق نے کہا کہ ’پہلی اننگز کی برتری اور دوسری اننگز میں اسد شفیق اور سرفراز کی پارٹنرشپ میچ کے ٹرننگ پوائنٹس تھے۔‘ فتح کے بعد پاکستانی ٹیم گراؤنڈ میں اس بار سجدوں کے بجائے ہمیں پش اپس اور سلیوٹ کرتی دکھائی دی۔ مصباح الحق نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پش اپس اور سلیوٹ ان پاکستانی فوجی جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیے گئے ’جو اپنی کم تنخواہوں پر ملک و قوم کے لیے زندگی قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ فوجی جوانوں نے برطانیہ کے دورے سے قبل پاکستان آرمی کے زیرِاہتمام ہونے والے ٹریننگ کیمپ میں قومی ٹیم کی بہت مدد کی تھی۔
عادل شاہ زیب
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن