کرکٹ : نوجوانوں کی گلی محلے کی کرکٹ اب ٹی ٹین کے نام سے بین الاقوامی سٹیڈیم میں کھیلی جائے گی

کرکٹ نے شائقین کی توجہ حاصل کرنے کے کئی مراحل طے کیے ہیں۔ دن کی کرکٹ رات میں بدلی۔ گیند اور پیرہن کے رنگ بدلے اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مصداق پانچ دن کی کرکٹ ایک دن کی کرکٹ میں تبدیل ہوئی پھر 50 اوورز سے معاملہ 20 اوورز تک آ گیا۔ اور اب ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے 10 اوورز کی کرکٹ سب کے سامنے آ رہی ہے۔ 10 اوورز کی کرکٹ کو عام طور پر گلی محلے کا کھیل سمجھا جاتا ہے لیکن اب اس گلی محلے کی کرکٹ کو کھیل کے مروجہ قواعد وضوابط کے مطابق سٹیڈیم میں لایا گیا ہے۔

10 اوورز کی اپنی نوعیت کی پہلی ٹی ٹین لیگ شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں شروع ہو رہی ہے جس میں چھ ٹیمیں پنجابی لیجنڈز، بنگال ٹائیگرز، کیرالہ کنگز، مراٹھا عربیئنز، پختونز اور ٹیم سری لنکا شامل ہیں۔ اس ٹی ٹین لیگ کے صدر سلمان اقبال کا کہنا ہے کہ آج کل نوجوان نسل انٹرنیٹ کی دلدادہ بن چکی ہے وہ عام طور پر فٹبال اور باسکٹ بال میں دلچسپی رکھتی ہے جن کا دورانیہ 90 منٹ ہوتا ہے۔ ’نوجوانوں کے پاس پورے دن کی کرکٹ کے لیے وقت نہیں ہے اور چونکہ یہ ٹی ٹین کرکٹ بھی ڈیڑھ گھنٹے دورانیے کی ہے لہٰذا مجھے یقین ہے کہ شائقین اسے پسند کریں گے‘۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق کے خیالات بھی اسی طرح کے ہیں جو اس ٹی ٹین لیگ کی ٹیم پنجابی لیجنڈز کی قیادت کر رہے ہیں۔ مصباح الحق کا کہنا ہے کہ کرکٹ کے کھیل میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کئی تجربات کیے جا چکے ہیں۔ ’یہ ٹی ٹین کرکٹ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو ان لوگوں کے لیے بہترین تفریح ثابت ہو گی جو تین گھنٹے کے ٹی ٹوئنٹی میں بھی اب اکتاہٹ محسوس کرنے لگے ہیں۔ اس طرز کی کرکٹ کا اصل مقصد یہی ہے کہ شائقین کو بڑی تعداد میں سٹیڈیم میں لایا جائے۔

مصباح الحق کا کہنا ہے کہ جو بھی تبدیلی آتی ہے وہ پہلے آزمائشی بنیادوں پر ہوتی ہے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگوں کی اس میں دلچسپی کتنی ہے اور اگر یہ تجربہ کامیاب رہا اور شائقین میں اسے پذیرائی حاصل رہی تو ایک وقت آئے گا کہ آئی سی سی بھی اسے تسلیم کرے گا۔ ٹی ٹین کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق آل راؤنڈر شاہد آفریدی کا من پسند فارمیٹ سمجھا جا رہا ہے۔ خود شاہد آفریدی اس ایونٹ کے لیے خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ مزید ایک سال تک ٹی ٹوئنٹی لیگس کھیل کر کریئر کا اختتام کر لیں گے لیکن اس ٹی ٹین کے آنے کے بعد لگ رہا ہے کہ ان کے لیے کرکٹ کو خیرباد کہنا آسان نہ ہو گا۔

شاہد آفریدی ٹی ٹین میں حصہ لینے والی ٹیم پختونز کے کپتان ہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد اس لیگ میں بنگال ٹائیگرز کے کپتان ہیں۔ سرفراز احمد بھی 10 اوورز کی اس لیگ کو شائقین کے لیے ایک بہترین تفریح سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ نوجوان کرکٹرز کو یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ سے اپنی توجہ ہرگز مت ہٹائیں جو درحقیقت اصل کرکٹ ہے۔ اس ٹی ٹین لیگ کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی منظوری حاصل ہے۔ آئی سی سی کے قواعد و ضوابط کے تحت اگر کوئی ایونٹ اس کے رکن بورڈ کے تحت ہو رہا ہو اور کم ازکم دو کرکٹ بورڈز اس کی حمایت کر رہے ہوں تو وہ آئی سی سی کا منظور شدہ ایونٹ کہلاتا ہے۔

واضح رہے کہ ٹی ٹین لیگ کا میزبان امارات کرکٹ بورڈ ہے اور اسے پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے کرکٹ بورڈز کی حمایت حاصل ہے۔ اس ٹی ٹین لیگ میں شریک سری لنکن ٹیم خود سری لنکن کرکٹ بورڈ نے منتخب کی ہے۔ اس فرنچائز لیگ کے مالکان متحدہ عرب امارات میں مقیم بھارتی اور پاکستانی ہیں۔
اس لیگ میں پاکستان اور دیگر ممالک کے کئی اسٹار کرکٹرز حصہ لے رہے ہیں جن کا انتخاب آئی پی ایل اور پی ایس ایل کی طرز پر ڈرافٹنگ کے ذریعے کیا گیا ہے۔

غیر ملکی کرکٹرز میں انگلینڈ کے ون ڈے کپتان اوئن مورگن، الیکس ہیلز، بھارت کے وریندر سہواگ، ویسٹ انڈیز کے ڈیرن سیمی، کارلوس بریتھ ویٹ، ڈیرن براوو، ڈوئن براوو، بنگلہ دیش کے شکیب الحسن، تمیم اقبال اور نیوزی لینڈ کے لیوک رانکی قابل ذکر ہیں۔ سابق کرکٹرز وسیم اکرم، وقار یونس، معین خان اور مشتاق احمد اس ایونٹ میں کوچز کے روپ میں نظر آئیں گے۔

عبدالرشید شکور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
 

الوداع مصباح، الوداع یونس

 پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق اور ان کے ساتھی کھلاڑی اور ملک کے سب سے کامیاب بیٹسمین یونس خان نے ڈومینیکا کے ونڈسر سٹیڈیم میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنے ٹیسٹ کیریئر کو الوادع کہا۔ 42 سالہ مصباح اور 39 سالہ یونس نے 66 ٹیسٹ میچوں کی 52 اننگز میں ایک دوسرے کے رفاقت میں 69.67 کی اوسط سے 3205 رنز بنائے اور15 اننگز میں سنچری کی شراکت بھی قائم کی۔ 

مصباح کرکٹ کی 140 سالہ تاریخ کے بدقسمت ترین بلے باز

پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق ویسٹ انڈیز کے خلاف دوسرے ٹیسٹ
میچ میں 99 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹے جس کے ساتھ ہی وہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایک انوکھا ریکارڈ اپنے نام کر گئے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں 99 کے اسکور پر ویسٹ انڈین کپتان جیسن ہولڈر نے پاکستان کے کپتان کی اننگز کا اختتام کر دیا جس کے ساتھ ہی وہ کرکٹ کی 140 سالہ تاریخ میں پہلے کھلاڑی ہیں جس کی اننگز تین مرتبہ 99 رنز پر تمام ہوئی۔ مصباح الحق اپنے کیریئر میں کُل تین مرتبہ 99 کے ہندسے تک محدود رہے جہاں دو مرتبہ وہ اپنی وکٹ محفوظ نہ رکھ سکے اور ایک مرتبہ پوری ٹیم پویلین لوٹنے کے سبب وہ اپنی اننگز کو تین ہندسوں میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے۔

2011 میں نیوزی لینڈ کے خلاف ویلنگٹن ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں 99 رنز پر کرس مارٹن کو وکٹ دے بیٹھے تھے لیکن دونوں اننگز میں مجموعہ طور پر 169 رنز بنانے پر انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا تھا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف رواں سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں مصباح الحق 99 رنز پر ناقابل شکست رہے تھے اور پوری ٹیم پویلین لوٹنے کے سبب سنچری نہیں بنا سکے تھے۔ اور اب بارباڈوس میں کھیلے جا رہے دوسرے ٹیسٹ میچ میں مصباح الحق 99 کے اسکور پر پویلین لوٹے جس کے ساتھ ہی وہ ایک انوکھا ریکارڈ اپنے نام کر گئے ہیں اور کرکٹ کی تاریخ میں آج تک کوئی اور ایسا بدقسمت بلے باز نہیں جس کی اننگز تین مرتبہ 99 رنز تک پہنچنے کے بعد سنچری سے قبل ہی ختم ہو گئی ہو۔

اس سے قبل انگلینڈ کے مائیکل ایتھرٹن، جیف بائیکاٹ، مائیک اسمتھ، آسٹریلیا کے سائمن کیٹچ، گریگ بلیوٹ، ہندوستان کے سارو گنگولی، نیوزی لینڈ کے جان رائٹ، ویسٹ انڈیز کے رچی رچرڈسن اور پاکساتن کے سابق کپتان سلیم ملک کیریئر میں دو مرتبہ 99 رنز پر آؤٹ ہوئے۔

پاکستان کرکٹ کی کہکشاں سے روشن ستارے جدا ہو گئے

سنا تھا کہ جب ٹیمیں عالمی سطح پر بری طرح شکستوں سے دو چار ہوتی ہیں تو
ان ناکامیوں کا نزلہ کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمنٹ پر ہی گرتا ہے۔ بورڈ عہدیدار پلیئرز، کوچز اور ٹیم منیجرز کو قربانی کے بکرے بنا کر بڑی مہارت سے اپنی کرسیاں بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اس بار تو تمام اندازے اور روایات بالکل الٹ ہو گئیں، ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز ابھی شروع ہوئی نہیں کہ کپتان مصباح الحق کے بعد یونس خان نے بھی انٹرنیشنل کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا،ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا جب کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے شاہد آفریدی نے بھی کرکٹ کا بھرا میلہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا، پاکستان کرکٹ ٹیم کے یہ تینوں ایسے کھلاڑی ہیں جن کی عالمی سطح پر کرکٹ خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

مصباح الحق کی بات کی جائے تو جن حالات میں انہیں پاکستانی ٹیم کی قیادت ملی اور پھر وہ بلندی جہاں تک وہ گرین کیپس کو لے کر بھی گئے، ٹیسٹ کرکٹ میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ 2010 کے لارڈز ٹیسٹ کو ہی دیکھ لیں جب کپتان سلمان بٹ سمیت 3 اہم کھلاڑی سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہوئے، ہر طرف سے لعن طعن، شرمندگی، پست حوصلوں اور عالمی کرکٹ میں تنہائی کا شکار ٹیم اپنے ملک میں کھیلنے سے بھی محروم تھی، فکسرز کی ملی کالک شاید قومی شرمندگی کی علامت بن گئی تھی اور نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ پاکستان پر کرکٹ کے عالمی دروازے تک بند ہو سکتے تھے لیکن 6 برس بعد اسی ٹیم کا منکسرالمزاج قائد دنیا کی نمبر ون ٹیسٹ ٹیم کا ایوارڈ آئی سی سی کے سربراہ سے وصول کر رہا تھا، یہ ٹیم عمران خان یا وسیم اکرم کی ٹیم نہیں تھی، بڑے بڑے ناموں کے بغیر پاکستان کرکٹ کو فرش سے عرش پر پہنچا دینے کا کریڈٹ اگر کسی کو دیا جا سکتا ہے تو وہ صرف مصباح الحق ہی ہو سکتے ہیں۔ وہی مصباح جو اس مشکل سفر کے دوران پاکستان کا کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان اور ٹیم کا سب سے قابل ِ بھروسہ بیٹسمین بن کر ابھرے۔

مصباح ان باصلاحیت کھلاڑیوں میں سے نہیں ہیں جو اچانک دنیائے کرکٹ میں آئے اور کم عمری میں ہی بین الاقوامی میچز میں جلوہ گر ہو کر یہ عندیہ دے دیا کہ وہ آئندہ دنوں میں کرکٹ کے مایہ ناز کھلاڑی بن سامنے آئیں گے، وہ نہ مشتاق محمد، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس یا شاہد آفریدی تھے اور نہ ہی محمد عامر جیسے ہونہار کھلاڑیوں کی طرح تھے بلکہ ان کرکٹرز کے برعکس وہ لڑکپن اور اوائلِ نوجوانی میں بین الاقوامی کرکٹ میں دور دور تک نظر نہیں آئے۔ 2001 میں 27 برس کی عمر میں جب وہ بالاخر پاکستان ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنے تب ان کی قابلیت اور ہنر کے بارے میں کچھ بھی فطری نہیں تھا، پھر بھی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سابق پاکستانی کپتان اور آل راؤنڈر عمران خان کی طرح مصباح بھی مسلسل محنت کرتے ہوئے عظیم کہلانے کے رتبے پر جا پہنچے۔

یہ حقیقت ہے کہ کرکٹ میں مصباح الحق بہت دیر سے سامنے آئے اور جب انہوں نے ٹیم کی قیادت سنبھالی اس وقت پاکستان کی کرکٹ مشکلات کی زد میں تھی، ٹیم اسپاٹ فکسنگ کی وجہ سے بکھری ہوئی تھی اور شدید اندرونی کشمکش کا شکار تھی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز حقیقت یہ تھی کہ مصباح، کرکٹ سے دیوانگی رکھنے والے ملک کی ٹیم کی کپتانی کر رہے تھے جو اپنے وجود کی بقا کی سست مگر افراتفری سے بھرپور اندرونی جنگ لڑ رہا تھا، دہشت گرد حملوں اور بم دھماکوں میں الجھا ہوا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں معصوم شہریوں، فوجی اور پولیس اہلکار جاں بحق ہو چکے تھے، جب ملک میں یہ سب جاری تھا اس دوران مصباح ایسی پاکستانی ٹیم کی سربراہی کر رہے تھے جو اپنے میچز غیر ملکی میدانوں میں یو اے ای میں کھیلنے پر مجبور تھی۔
مصباح نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے ملک میں کسی ٹیسٹ میچ میں ٹیم کی سربراہی نہیں کی اور نہ ہی ایسے میدانوں اور تماشائیوں کے درمیان کھیلا جن سے کھلاڑی زیادہ آشنا ہوتے۔ پھر بھی اپنے سارے میچز غیر ملکی میدانوں میں جیت کر انہوں نے خود کو ملک کا کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان ثابت کیا، اور ایسا کارنامہ سرانجام دیا جو کرکٹ کے عظیم کپتان بھی نہیں کر پائے۔ مصباح کی غیر معمولی اور ایک حد تک انوکھی کہانی ایک ایسے بیٹسمین کے بارے میں ہے جس نے کافی دیر سے کرکٹ کھیلنا شروع کیا جب ان کو ٹیم کو شامل کیا گیا تب تک وہ 27 برس کے ہوچکے تھے اور جب انہیں ڈراپ کیا گیا تو اگلے پانچ سالوں تک ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تھا، پھر ٹی 20 فارمیٹ کے پہلے ورلڈ کپ کے دوران اچانک ہی ملک کی ٹی 20 ٹیم میں شامل کر لیا گیا، جس میں انہوں نے بہترین کھیل پیش کیا اور پاکستان کو فائنل میں فتح کے قریب لا کھڑا کر دیا، انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں خود کو مضبوط رکھا، پھر دوبارہ ڈراپ کیے گئے، وہ بھلا ہی دیئے گئے تھے مگر پھر اچانک ہی 2010 میں کرکٹ بورڈ کو مصباح یاد کیا گیا اور 36 برس کی عمر میں انہیں کپتان بنا دیا گیا۔
2007 میں شعیب ملک کو انضمام الحق کی جگہ بطور کپتان مقرر کیا گیا تھا، جن کی ٹیم کو ویسٹ انڈیز میں ورلڈ کپ کے دوران بدترین شکست ہوئی تھی۔ انضمام ریٹائر ہوئے اور نوجوان، قابل اور کسی حد تک چیلنجنگ ملک کو ٹیم کا نیا کپتان مقرر کر دیا گیا۔ جب ٹیم جنوبی افریقہ میں ہونے والے پہلے ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے نامزد ہوئی تو شعیب ملک نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت کے 33 سالہ مصباح کو ٹیم میں شامل کیا جائے اور وہ بھی محمد یوسف جیسے تجربہ کار نمایاں کھلاڑی کی جگہ پر ان کو شامل کیا جائے، یوسف کی ٹیم سے بے دخلی پر مداحوں اور میڈیا میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا، مصباح الحق نے مختصر طرز کے عالمی کپ میں اپنی پرفارمنس سے اپنا انتخاب درست بھی کر دکھایا۔
مصباح کے بارے میں مشہور ہے کہ کبھی کوئی بغض نہیں پالتا، مگر وہ کسی کے ہمدردانہ عمل کو بھی نہیں بھولتے، اگر وہ دیکھتے ہیں کہ ان سے اتفاق نہیں کیا جا رہا یا غیر منصفانہ طور پر ان پر تنقید کی جا رہی ہے تو وہ خاموشی سے وہاں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، مگر کسی کی سخاوت یا نرم دل اقدام کو سراہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کی انتظامی صلاحیت نہایت ہی عمدہ ہے، وہ ہر ایک کھلاڑی کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ہر کھلاڑی سے اس کے مطابق پیش آتے ہیں، وہ ان سب کو تحمل سے سنتے ہیں۔
مصباح کی کپتانی کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنی مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں کہ سینئرز کو اپنی عزت جونیئرز سے ہی کمانی ہو گی، اور اسے اپنا حق نہیں سمجھا جا سکتا۔ کوئی دور تھا جب سینئرز رعونت سے پیش آتے تھے، نوجوان کھلاڑیوں کو اپنے قابو میں رکھتے اور ان سے سینئرز کے معمولی سے معمولی کام کی توقع کی جاتی تھی، مصباح نے اس طریقے کو بدل کر رکھ دیا۔
مصباح الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قومی ٹیم کی بیٹنگ کے اہم ستون یونس خان بھی انٹرنیشنل کرکٹ سے الگ ہو گئے ہیں، ہفتہ کو ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا اعلان کرتے ہوئے یونس خان کا کہنا تھا کہ میں نے ہمیشہ پاکستان کے لیے کھیلنے کی کوشش کی اور یہی سوچا کہ کھیل کے دوران میرا سر فخر سے بلند رہے، ہرکھلاڑی کی زندگی میں ایسا وقت آتا ہے جب وہ اپنے جنون سے پیچھے ہٹ جاتا ہے اور میرا وقت بھی آگیا ہے، وہ اعلان کرتے ہیں کہ دورہ ویسٹ انڈیز ان کا آخری دورہ ہو گا، اس کے بعد وہ بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہو جائیں گے۔
یونس خان ٹیسٹ کرکٹ میں 115 میچز کی 207 اننگز میں 53.06 کی اوسط سے 9977 رنز بنا چکے ہیں اور انہیں 10 ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرنے کے لئے صرف 23 رنز درکار ہیں۔ اگر یونس خان ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلتے ہیں تو اس بات کا قومی امکان ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے 10 ہزار ٹیسٹ رنز بنانے والے پہلے کھلاڑی بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پاکستان ٹیسٹ ٹیم میں شامل تمام کھلاڑیوں نے شاید اتنے رنز نہیں بنائے ہوں گے جتنے یونس خان اور مصباح الحق نے بنا رکھے ہیں۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا جب شاہد آفریدی نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیر باد کہا تھا، بوم بوم سے زیادہ تفریح شاید ہی کسی کرکٹر نے شائقین کو فراہم کی ہو، مصباح الحق، یونس خان اور شاہد آفریدی کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایسے پلیئرز بار بار پیدا نہیں ہوتے، کرکٹ بورڈ نے کیریئر کے دوران ان عظیم پلیئرز کو وہ عزت نہیں دی جو ان کا حق تھی، اب بھی پی سی بی حکام ان کو باوقار انداز میں رخصت کر کے اپنی غلطیوں کا کسی حد تک اژالہ کر سکتے ہیں، مصباح الحق اور یونس خان کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کرتے ہوئے اگر شاہد آفریدی کو بھی یاد رکھا جائے تو کوئی برائی نہیں۔
عمران شاید پاکستانی کے دیومالائی کردار ہیں، آفریدی پاکستانیوں کے تصورات کے ہیرو ہیں، یونس خان نے بھی اپنے عمدہ کھیل سے کرکٹ میں خاص مقام بنایا مگر مصباح پاکستان کی حقیقت ہیں۔ مصباح اپنے پیچھے ایسی پاکستانی کرکٹ ٹیم چھوڑ  کر جا رہے ہیں جس میں ایک بھی عمران خان، یونس خان، شاہد آفریدی، وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، جاوید میانداد اور عبدالقادر جیسا بڑا کھلاڑی موجود نہیں ، سرفراز احمد بھی انٹرنیشنل کرکٹ کا زیادہ تجربہ نہیں رکھتے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرفراز احمد ٹوئنٹی 20، ایک روزہ اور ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کے ساتھ انصاف کر سکیں گے، کیا ٹیم میں موجود نوجوانوں کھلاڑیوں میں کوئی سٹار پلیئر بن کر ابھرے گا، کیا پاکستانی ٹیم عالمی رینکنگ میں تنزلی کی چلتی گاڑی کو بریک لگا سکے گی اور کیا گرین شرٹس براہ راست ورلڈ کپ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے، یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب آنے 
والا وقت ہی بتائے گا۔
میاں اصغر سلیمی  ا

مصباح الحق اور یونس خان وزڈن کے پانچ بہترین کرکٹرز میں شامل

پاکستان کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز بلے باز یونس خان اور ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کو سال 2017 کے وزڈن کرکٹرز میں شامل کر لیا گیا۔ وزڈن کرکٹرز المانیک نے سال 2017 کے بہترین کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کر دیا جس میں پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے دو بڑے نام یونس خان اور مصباح الحق کو بھی شامل کر لیا گیا۔ وزڈن کرکٹرز کی فہرست میں رواں سال ایشیائی کھلاڑیوں کا راج رہا جہاں ہندوستان کے کپتان ویرات کوہلی کو بھی نامزد کیا گیا جس کے بعد تین ایشیائی کھلاڑیوں نے جگہ بنائی ہے۔
یونس خان کی جانب سے 2016 میں دورہ انگلینڈ میں بہترین کارکردگی کے باعث پاکستان ٹیم نے سیریز کو 2-2 سے برابر کر دیا تھا جس کے بعد قومی ٹیم پہلی مرتبہ آئی سی سی کی درجہ بندی میں پہلی پوزیشن پر آگئی تھی۔ مصباح الحق کی قیادت میں پاکستان نے ٹیسٹ کی نمبرایک ٹیم بننے کا اعزازحاصل کیا تھا۔ خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان، وقار یونس، وسیم اکرم اور جاوید میانداد بھی وزڈن کرکٹرز میں شامل رہ چکے ہیں۔
2017 میں وزڈن کرکٹرز کی فہرست میں شامل ہونے والے کھلاڑیوں میں ایک اور بڑا نام ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی کا ہے جنھوں نے نہ صرف اپنی ذاتی کارکردگی سے بھارت کو فتوحات دلائیں بلکہ بطور کپتان اپنی ٹیم کو دنیا کی سرفہرست ٹیم بنایا اور یکم اپریل کے مقرر وقت تک اس درجے کو برقرار رکھ کر سب سے زیادہ انعام پانے والی ٹیسٹ ٹیم بننے کا بھی اعزاز حاصل کیا تھا۔ ویرات کوہلی کو دنیا کا سرفہرست کھلاڑی قرار دیا گیا۔
انگلینڈ کے کرکٹر بین ڈکٹ، کرس ووکس اور ٹی ایس رولینڈ کا نام بھی وزڈن کرکٹرز 2017 کی فہرست میں شامل ہے۔ آسٹریلیا کی ایلیسی پیری نے خواتین وزڈن کرکٹر2017 کا اعزاز اپنے نام کیا۔ یاد رہے کہ 1889 میں شروع کیا گیا وزڈن کرکٹرز ایوارڈ کسی بھی کھلاڑی کو کیریئر میں ایک مرتبہ دیا جاتا ہے۔

اسد شفیق نے گیری سوبرز کا ریکارڈ توڑ دیا

 اسد شفیق نے چھٹے نمبر پر سب سے زیادہ سنچریوں کا گیری سوبرز کا ریکارڈ
توڑ دیا۔ اسدشفیق نے برسبین جاری پہلے ٹیسٹ میں سنچری اسکورکی جوکہ ان کے بیٹنگ آرڈر میں چھٹے نمبر پر نویں 3 فیگر اننگز شمار ہوئی جوکہ ایک ریکارڈ ہے، انھوں نے اس معاملے میں ویسٹ انڈیز کے سابق سپر اسٹار گیری سوبرز کو پیچھے چھوڑدیا جنھوں نے چھٹے نمبر پر 8 سنچریاں بنائی تھیں۔ اس بیٹنگ آرڈر پر سب سے زیادہ رنز کے معاملے میں اسد شفیق پانچویں نمبر پر ہیں اور یہ اسد شفیق کی چوتھی اننگز میں پہلی 3 فیگر اننگز ہے، اس سے قبل انھوں نے آخری باری میں دو مرتبہ نصف سینچری اسکور کی، جب گال میں 2012 میں 80 اور 2012-13 میں جوہانسبرگ میں 56 رنز کی اننگز کھیلی۔

اس سنچری اننگز سے قبل ان کی گذشتہ 7 اننگز میں ایوریج صرف 8.28 تھی جس میں تین ’ڈک‘ بھی شامل تھے۔ 382 رنز کے ساتھ پاکستان نے چوتھی اننگزمیں اپنا سابق بہترین ٹوٹل برابر کردیا، اتنے ہی رنز 2015 میں پالے کیلی میں بنائے تھے۔ اب یہ ریکارڈ گابا ٹیسٹ کے پانچویں روز ٹوٹ سکتا ہے۔
رواں دہائی میں ہدف کے تعاقب میں دومرتبہ 350 سے زائد رنز بنانے والی پاکستان دنیا کی واحد ٹیم بھی بن گئی ہے۔ اس نے گابا میں چوتھی اننگزکے بہترین اسکور کا ریکارڈ بھی توڑ دیا جوکہ انگلینڈ نے 2006-07 میں370 رنزکی صورت میں بنایا تھا۔ 
اب پاکستان اس وینیو پر آخری اننگز کے ٹوٹل کا نیا ریکارڈ بنارہا ہے،آسٹریلوی سرزمین پر اس سے قبل پاکستان کا چوتھی اننگز میں سب سے بڑا ٹوٹل 336 تھا جوکہ اس نے 1989-90میں میلبورن میں بنائے تھے۔ آسٹریلیا کے خلاف چوتھی اننگز کا سب سے بڑا ٹوٹل 445 ہے جوکہ بھارت نے ایڈیلیڈ میں 1977-78 میں بنایا تھا، ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے بڑا حاصل کیا جانے والا ہدف 418 ہے جوکہ ویسٹ انڈیز نے 2003 میں آسٹریلیا کے خلاف انٹیگا میں حاصل کیا تھا۔
چوتھی اننگز میں یونس خان کی ایوریج 55.42 ہے جوکہ آخری باری میں کم سے کم 1000 رنز بنانے والے 27 بیٹسمینوں میں تیسری بہترین اوسط ہے۔ یونس کے 65 رنز ایشیا سے باہر ٹیسٹ کرکٹ میں ہدف کے تعاقب میں سامنے آنے والی صرف تیسری ففٹی ہے۔ رواں برس ٹیسٹ میں صرف ایک پاکستانی بیٹسمین اظہر علی کی اوسط 50 سے زائد ہے جوکہ 52.77 ہے، ان کے بعد سمیع اسلم 40.46 کے ساتھ موجود ہیں، اظہر کے گابا میں 71 رنز ان کی چوتھی اننگز میں مسلسل دوسری ففٹی ہیں، اس سے قبل انھوں نے پاکستان کے گذشتہ ہیملٹن ٹیسٹ کی آخری اننگز میں 58 رنز بنائے تھے۔

پاک آسٹریلیا پہلا معرکہ سال کا بہترین ٹیسٹ قرار

 سابق کرکٹرز نے پاک آسٹریلیا معرکے کو سال کا بہترین ٹیسٹ قرار دے دیا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بہترین فائٹنگ اسپرٹ کا مظاہرہ کیا، ٹیم آخری گیند تک لڑے تو ہار میں کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے۔ وسیم اکرم نے کہا کہ آسٹریلیا کیخلاف گرین کیپس  کی ایسی کارکردگی نہیں دیکھی، شعیب اختر نے کہا کہ نتیجہ جو بھی تھا آپ چیمپئن ہو۔ تفصیلات کے مطابق برسبین ٹیسٹ میں پاکستان ٹیم کی حیران کن کارکردگی نے دنیا بھر کے سابق کرکٹرز کو ستائش پر مجبور کردیا، بیشتر نے اسے سال کا بہترین میچ قرار دیا۔
عمران خان نے کہا کہ باصلاحیت اسد شفیق کی کمانڈ میں گرین کیپس نے بہترین فائٹنگ اسپرٹ کا مظاہرہ کیا، جب ٹیم آخری گیند تک لڑے تو ہار میں کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے، کھلاڑیوں نے ہمارا سر فخر سے بلند کردیا۔ وسیم اکرم نے کہا کہ میں نے آج سے پہلے آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی ایسی کارکردگی نہیں دیکھی، نتیجہ جو بھی ہو لیکن ٹیم نے خوب جان لڑائی اور کینگروز کے پسینے چھڑا دیے، گرین کیپس کو اگلے میچز کیلیے اعتماد حاصل ہو گیا ہے، میزبان ٹیم کو اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ان کیلیے فتوحات کا سفر آسان نہیں ہے۔ جاوید میانداد نے کہا کہ پچ بیٹنگ کیلیے سازگار ہوگئی تھی لیکن مہمان ٹیم دباؤ میں کھیلتے ہوئے ایسا کارنامہ کرنے کے قریب تھی جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق نے اس کو تاریخی فائٹ بیک قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں کو شاباشی دی۔ مشتاق احمد نے کہا کہ بلاشبہ میچ کو سال کا بہترین ٹیسٹ کہا جا سکتا ہے، مہمان ٹیم نے دباؤ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، شعیب اختر نے پاکستانی کرکٹرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نتیجہ جو بھی تھا،آپ چیمپئن ہو۔ انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹر گریم سوان نے کہا کہ گرین کیپس نے دوسری اننگز میں حیران کن کھیل کا مظاہرہ کیا، میں پاکستان ٹیم کا مداح ہوں۔

دبئی کا تاریخی ٹیسٹ پاکستان کے نام

مصباح الحق کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے تاریخی ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچ میں تاریخی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز کو 56 رنز سے شکست دے کر سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کرلی۔ اظہرعلی نے پہلی اننگز میں ناقابل شکست رہتے ہوئے اپنے کیریئر کی بہترین اننگز 302 رنز بنائے تھے جس کی بدولت پاکستان نے 3 وکٹوں پر 579 رنز پر پہلی اننگز ڈیکلیئر کردی تھی۔
یاسر شاہ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلی اننگز میں تاریخی باؤلنگ کرتے ہوئے ایشیا اور پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین 100 وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا جبکہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں یہ اعزاز پانے والے مشترکہ طورپر دوسرے کھلاڑی بنے۔ یاسر نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں 85 سال بعد 17 میچوں میں 100 وکٹیں حاصل کرکے اپنا نام عظیم باؤلرز کی فہرست میں شامل کرلیا۔

 

پاکستان پہلی بار عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں سرفہرست

پاکستان کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی ٹیموں کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ آئی سی سی کی جانب سے سنہ 2003 میں اس عالمی درجہ بندی کے آغاز کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی ٹیم اس فہرست میں پہلا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ماضی میں پاکستان کی بہترین کارکردگی دوسری پوزیشن تھی جو اس نے گذشتہ برس متحدہ عراب امارات میں کھیلی جانے والی سیریز میں انگلینڈ کو شکست دینے کے بعد اور پھر رواں برس انگلینڈ کے خلاف سیریز برابر کر کے حاصل کی۔ آسٹریلیا کی سری لنکا کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں تین صفر سے شکست کے نتیجے میں جہاں پاکستانی ٹیم تیسرے سے دوسرے نمبر پر پہنچی وہیں انڈیا دوبارہ سرفہرست آ گئی تھی۔
نمبر ون ٹیسٹ ٹیم بننے کے لیے پاکستان کو انڈیا اور ویسٹ انڈیز کی سیریز کے چوتھے اور آخری ٹیسٹ کے نتیجے کا انتظار تھا۔ انڈیا کو اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے یہ ٹیسٹ جیتنا لازمی تھا تاہم بارش سے متاثرہ اس ٹیسٹ میچ کے بےنتیجہ رہنے کی وجہ سے پاکستان کی ٹیم 111 پوائنٹس کے ساتھ آئی سی سی کی درجہ بندی میں سب سے اوپر پہنچ گئی ہے۔ یہ میچ برابر رہنے کی صورت میں انڈیا کو دو پوائنٹس کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا اور یوں وہ اب 110 پوائنٹس کے ساتھ درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔
سری لنکا کے ہاتھوں وائٹ واش کے بعد آسٹریلیا کی ٹیم ٹیسٹ ٹیموں کی عالمی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر آ چکی ہے۔ اس وقت آسٹریلیا اور انگلینڈ دونوں کے پوائنٹس برابر یعنی 108 ہیں لیکن اعشاریہ کے فرق کی وجہ سے آسٹریلیا کو تیسری اور انگلینڈ کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ ٹیسٹ رینکنگ میں ابتدائی تین نمبروں پر موجود ٹیموں میں سے دو آسٹریلیا اور بھارت ایک روزہ کرکٹ کی عالمی درجہ بندی میں بھی بالترتیب پہلے اور تیسرے نمبر پر ہیں تا ہم پاکستان اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے اور اس کے سر پر اگلے ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ پاکستان کو اپنی درجہ بندی بہتر بنانے کے لیے انگلینڈ کے خلاف 24 اگست سے شروع ہونے والی پانچ میچوں کی سیریز واضح فرق سے جیتنی ہوگی.

ایک’ کُول‘ کپتان کی حوصلہ مند ٹیم

آج کا دن لندن کے سینٹ جانز وُڈ کے علاقے میں ایک ایسا دن تھا کہ جب آپ کسی
کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ سینٹ جانز وُڈ میں واقع دنیائے کرکٹ کے سب سے تاریخی میدان میں آج پاکستان اپنی اس فارم میں نظر آیا جو دنیا بھر میں اس ٹیم کی پہچان ہے، یعنی وہ پاکستانی ٹیم جس میں مہارت بھی ہوتی ہے، چالبازی بھی، جس میں گھورتی آنکھیں بھی ہوتی ہیں اور مسکراہٹیں بھی اور خوش قسمتی کے ساتھ ساتھ خطروں سے کھیلنے کا حوصلہ بھی ہوتا ہے۔

آج کرکٹ کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی میچ جس میں تین بڑی ٹیموں (آسٹریلیا، انڈیا اور انگلینڈ) میں سے کوئی ٹیم نہ کھیل رہی ہو، اسے کوئی میچ ہی نہیں سمجھتا۔ اس کے بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوہ ہمالیہ سر کیا ہو لیکن کرکٹ کی دنیا اس وقت تک اس کی تعریف نہیں کرتی آپ کوگھاس نہیں ڈالتی جب تک آپ ان تین بڑی ٹیموں میں سے کسی کو نہ ہرائیں۔
دنیا کی ساری توجہ انھی تین ممالک پر مرکوز رہتی ہے اور کرکٹ سے منسلک سارا پیسہ بھی ان ہی ممالک میں ہے۔

مصباح الحق نے اپنی ٹیم کی قیادت اس وقت سنبھالی جب یہ ٹیم آخری مرتبہ لارڈز کے میدان میں کھیلی تھی۔ یہ ٹیم متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں ایک ناقابل شکست ٹیم بن چکی ہے، لیکن اس کے باوجود اسے زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ اس لحاظ سے پاکستان کا یہ دورہ انگلینڈ اہم ہونا تھا کیونکہ اس دورے میں انھیں یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستانی ٹیم بھی ایک ٹیم ہے۔ اگر یہ ٹیم انگلینڈ سے جیت کر دکھا دیتی ہے تو پھر اسے تسلیم کیا جائے گا اور اس کی تعریف کی جائے گی۔ مصباح کی حالیہ ٹیم کی تشکیل سنہ 2014 میں اس وقت ہونا شروع ہوئی تھی جب سعید اجمل اور محمد حفیظ پر مکمل پابندی لگ گئی اور پاکستان کا بالنگ اٹیک بالکل بدل کر رہ گیا تھا۔ تب پاکستان نے اجمل کی جگہ جس بولر کو ٹیم میں شامل کیا وہ فوراً ہی دنیا کا بہترین سپنر بن گیا۔

ان دنوں مصباح کے پاس ٹیم میں شامل کرنے کے لیے تیز بالر بہت کم تھے لیکن اس دوران راحت علی اور عمران خان دونوں نے محنت جاری رکھی اور اپنی مہارت میں اضافہ کرتے رہے اور پھر ایک سال بعد وہاب ریاض کی شکل میں مصباح کو ایک اور اچھا تیز بولر مل گیا، ایک ایسا بولر جو مخالت بیٹنگ لائن کو اُڑا کر رکھ سکتا ہے۔ اور اس کے بعد محمد عامر ٹیم میں واپس آگئے اور پاکستان کے بولنگ اٹیک میں یکدم تیزی آگئی۔ پاکستان کے اس بولنگ اٹیک کے لیے انگلینڈ کی ساری ٹیم کو آؤٹ کرنے کے لیے صرف ایک دن کافی تھا۔ آج جس طرح پاکستانی بولر ایک ٹیم کی شکل میں کھیلے، اسے دیکھ کر لطف آگیا۔
انگلینڈ کی تمام وکٹیں چوکے، چھکے لگاتے ہوئے نہیں گریں، بلکہ ہر وکٹ گرنے سے پہلے کی گیندوں پر انگلینڈ کے بلے باز کوئی رن نہیں بنا پائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے انگلینڈ کے نئے آنے والے بلے باز کو آؤٹ کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ کارگر ثابت ہوا۔ یہی وہ پاکستانی ٹیم ہے جس سے ایک دنیا محبت کرتی رہی ہے۔ ایک ایسی ٹیم جو مخالف بلے باز کو جب تک پویلین واپس نہیں بھیج دیتی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اس کے باوجود آج پاکستان کی جو ’روایتی‘ ٹیم ہم نے لارڈز میں دیکھی اس میں ایک فرق واضح تھا اور وہ یہ کہ اس ٹیم کی کپتانی مصباح کے ہاتھ میں تھی۔
یہ سال کپتان کے لیے زبردست سال رہا ہے۔ اس سال کے شروع میں انھوں نے پی ایس ایل کی پہلی ٹرافی جیتی اور سال کے آخر میں آخر کار انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ اتنی خوبصورت داڑھی میں بہت ’ُکول‘ لگتے ہیں۔ پاکستان یہ میچ اسی وقت جیت گیا تھا جب سینچری بنانے کے بعد کپتان نے میدان میں ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تھے، کیونکہ اپنے کپتان کی خوشی اور ان کا اعتماد دیکھ کر ٹیم کے حوصلے مزید بلند ہو گئے تھے۔ اسی لیے میچ جیتنے کے بعد جب ساری ٹیم نے ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تو اس پر کسی کو بھی زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔
یہ لمحہ واقعی بہت خوبصورت، حیرت انگیز اور مسرت سے بھرپور لمحہ تھا۔
چھ سال پہلے مصباح الحق سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک ٹوٹی پھوٹی ٹیم کو آ کر سنبھالیں اور آج چھ سال بعد انھوں نے پاکستان کو ایک ایسی ٹیم دے دی ہے جو ماضی کی کسی بھی بہترین پاکستانی ٹیم سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہے۔
احمر نقوی
سپورٹس تجزیہ کار