میلکم مارشل : جو صرف دو گیندوں میں بلے باز کی کمزوری پہچان لیتے تھے

کرکٹ کی دنیا ہمیشہ 18 اپریل کی احسان مند رہے گی۔ 18 اپریل سنہ 1958 کو میلکم مارشل بارباڈوس میں پیدا ہوئے۔ ان کی آمد سے کرکٹ کی دنیا مزید دلچسپ اور پُرجوش ہو گئی۔ دنیائے کرکٹ میں جب ویسٹ انڈیز کے تیز بولرز کا طوطا بولتا تھا اس زمانے میں میلکم مارشل کے ساتھ اینڈی رابرٹس، جوئل گارنر، مائیکل ہولڈنگ اور کولن کرافٹ سے دنیا بھر کے بلے باز خوفزدہ رہتے تھے۔ لیکن ان میں میلکم مارشل سب سے مختلف اور جدا تھے۔ میلکم مارشل جس طرح کے بولر تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ان خطرناک بولرز میں تیز ترین تھے۔ جب مارشل نے سنہ 1991 میں ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہا تو انھوں نے 81 ٹیسٹ میں 376 وکٹیں لے رکھی تھیں۔ ان کا بولنگ سٹرائک ریٹ 47 سے کم تھا جبکہ اوسط 21 سے کم۔ تاہم ان اعداد و شمار سے یہ انکشاف نہیں ہوتا کہ مارشل کتنے خطرناک بولر تھے۔

خوف کا دوسرا نام
در حقیقت سنہ 1983 سے 1991 تک مارشل دنیا بھر کے بلے بازوں کے لیے خوف کا دوسرا نام تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مارشل جتنے مہلک فاسٹ بولر تھے اتنا ہی اپنی گیندوں پر انھیں کنٹرول تھا۔ اگر آپ رفتار کے لحاظ سے انھیں ‘بروٹل’ (سفاک) کہتے ہیں تو لائن اور لینتھ کے معاملے میں انھیں ‘روتھ لیس’ یعنی بے رحم کہنا بے جا نہ ہو گا۔ اپنے بین الاقوامی کیریئر کے 13 سال میں مارشل صرف آٹھ سال ہی بین الاقوامی کرکٹ کھیل سکے۔ لیکن اس دوران انھوں نے پوری دنیا میں اپنے مداح بنائے۔ مارشل کے ساتھ کھیلنے والے بولر مائیکل ہولڈنگ نے اپنی سوانح عمری ‘نو ہولڈنگ بیک’ میں لکھا: ‘میرے خیال میں میلکم مارشل اور اینڈی رابرٹس دنیا کے تیز ترین بولرز تھے۔ میلکم رابرٹس سے تیز تھے۔ ہم اسے میکو پکارتے تھے۔ ‘میں نے مارشل کو سنہ 1979-80 کے دورہ آسٹریلیا سے پہلے دیکھا تھا۔ ان کا قد چھ فٹ سے کم تھا، لہذا ہمارا خیال تھا کہ وہ زیادہ تیز بولر نہیں ہوں گے لیکن ہمارے ساتھی کھلاڑی ڈیسمنڈ ہینز نے کہا تھا دیکھنا کہ وہ کتنا تیز ہے، وہ واقعی تیز ہے۔ بہت تیز ہے۔’

پاؤں پر وزن رکھتے تھے
مارشل اپنی کرکٹ پر کس قدر توجہ دیتے تھے اور وہ اپنے قد سے اونچے بولرز کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتاری سے گیند کس طرح پھینکتے تھے، اس کے متعلق مائیکل ہولڈنگ نے ایک دلچسپ بات بتائی۔ ہولڈنگ کے مطابق: ‘ایک بار جب ہم تاش کھیل رہے تھے اور کسی وجہ سے میکو کی فل پینٹ اوپر کھسک آئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے دونوں پیروں پر وزن کی پٹیاں لگا رکھی تھیں۔ میں حیرت زدہ تھا، میں نے پوچھا کہ یہ کیا لگا رکھا ہے تو میکو نے کہا کہ وہ ہر وقت اپنے پاؤں پر اضافی وزن رکھتے ہیں، یہاں تک کہ جب خریداری کرتے ہوں یا آرام کر رہے ہوں تو بھی۔ تاکہ ٹانگوں کے پٹھے زیادہ مضبوط ہوں۔’ ہولڈنگ اپنے ساتھی کرکٹر کی اس مشق پر حیران تھے۔ انھوں نے میلکم سے پوچھا کہ جب میچ کے دوران تم یہ سٹرپس کھولتے ہو تو کیسا محسوس کرتے ہو۔ میلکم مارشل نے ان سے کہا اس کے بعد ‘میں سارا دن دوڑتا رہ سکتا ہوں۔’

یہ مارشل کے کریئر کی محض ایک مثال ہے۔ اس وقت کرکٹ کی دنیا میں ٹیکنالوجی پر اس قدر زور نہیں دیا جاتا تھا۔ کوچنگ عملے کی بیٹری ایک، ایک کھلاڑی کے پیچھے نہیں ہوتی تھی، لیکن مارشل نے پریکٹس کے ذریعے خود کو مہلک بنانے کا طریقہ سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ جب وہ اپنے رن اپ سے دوڑ کر امپائر کے پاس سے گزرتے تو ان کی اپنی رفتار انتہائی تیز ہوتی تھی اور کندھے کے استعمال والے ایکشن کے ساتھ جب گیند ان کے ہاتھ سے نکلتی تو وہ گولی کی رفتار سے بیٹسمین کے پاس پہنچتی تھی۔ خواہ ان کی لیگ کٹر گیندیں ہوں یا اسٹمپ سے باہر سوئنگ کرنے والی گیندیں ہوں، بلے بازوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ مارشل اپنی بولنگ سے پوری طرح لطف اٹھاتے تھے۔ لہذا وہ وقت بے وقت اپنے باؤنسر سے بیٹسمینوں کی آزمائش کیا کرتے تھے۔

ان کے باؤنسروں کی درستی اتنی زیادہ تھی کہ زیادہ تر بیٹسمین ان کی گیندوں پر چوٹ کھا جاتے تھے۔ سامنے بیٹسمین کو پریشان دیکھ کر مارشل کو ایک قسم کی خوشی ہوتی تھی۔ جب وہ راؤنڈ دی وکٹ بولنگ کے لیے آتے تو ان کے باؤنسروں کی درستگی میں کافی اضافہ ہو جاتا تھا۔ انگلینڈ کے بلے باز مائیک گیٹنگ کی ناک مارشل کے باؤنسر سے ہی ٹوٹی تھی۔ پاکستان کے تیز بولر وسیم اکرم نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ‘میلکم مارشل کسی بھی بیٹسمین کی کمزوری کو صرف دو گیندوں میں پہچان جاتے تھے۔ یہی خصوصیت انھیں مارشل بناتی تھی۔’ مارشل نے جن 81 ٹیسٹ میں شرکت کی ان میں سے ان کی ٹیم 43 ٹیسٹ میں فاتح رہی اور انھوں نے ان جیتنے والے میچز میں 254 وکٹیں حاصل کیں۔ چار فاسٹ بولرز کے ساتھ کسی ایک بولر کا ایسا غلبہ کرکٹ کی دنیا میں شاید ہی دیکھا جائے۔

پردیپ کمار
بی بی سی ہندی، نئی دہلی

بشکریہ بی بی سی اردو

Leave a comment