برازیل میں لیاری کے چرچے

کراچی کے علاقے لیاری میں برازیل کا ذکر تو ہوتا ہی رہتا ہے لیکن اب برازیل میں لیاری کا چرچہ ہو گیا ہے۔ لیاری میں فٹبال کا کھیل بہت پسند کیا جاتا ہے اور یہاں کے لوگوں کو برازیل کی ٹیم سے بھی بہت زیادہ محبت ہے۔ برازیل کا کوئی بھی میچ ہو لیاری میں اسے دیکھنے کے لیے نوجوان خاص انتظام کرتے ہیں۔ قطر میں جاری فٹبال ورلڈ کپ کے دوران بھی لیاری میں برازیل کے میچ خصوصی دلچسپی اور انتظامات کر کے دیکھے گئے۔ برازیل کے ایک نیوز چینل پر لیاری کے لوگوں کی فٹبال میں دلچسپی کو دکھایا گیا۔ نیوز چینل پر لیاری کے لوگوں، گلیوں اور فٹبال میدان کو بھی دکھایا گیا۔ برازیل کے ٹی وی چینل نے اپنی رپورٹ میں لیاری کی دیواروں پر آرٹ ورک اور فٹبال سے محبت کی پینٹنگز بھی دکھائیں۔ لیاری میں بڑی اسکرین پر دیکھے گئے برازیل کے میچ اور مداحوں کے جشن کی ویڈیو بھی برازیل کے ٹی وی چینل نے اپنی رپورٹ میں شامل کیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

سنہ 1992 اور 2022 کے ورلڈکپ میں پاکستان کیلیے کیا مشترک ہے؟ دلچسپ حقائق

سال 1992 میں پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور کپتان عمران خان کی قیادت میں پہلا آئی سی سی ورلڈکپ اپنے نام کیا تھا جو آسٹریلیا کی سرزمین پر کھیلا گیا تھا۔ رواں سال بھی آسٹریلیا ٹی 20 ورلڈکپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ ایونٹ میں قومی ٹیم کا سیمی فائنل میں کوالیفائی کرنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا اور ایسا تب ہوا جب نیدر لینڈز کی ٹیم نے جنوبی افریقا کو اپ سیٹ شکست دی۔ کون سی چیزیں 1992 اور 2022 کے ورلڈکپ میں مشترک ہیں آئیے جانتے ہیں۔ سال 1992 میں آسٹریلیا گروپ راؤنڈ سے باہر ہوگیا تھا، ایسا ہی کچھ ٹی20 ورلڈکپ میں ہوا ہے اور کینگروز کی ٹیم سپر 12 مرحلے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ پاکستان نے اپنا پہلا ابتدائی میچ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا تھا اور شکست ہوئی تھی، سال 2022 میں بھی ایسا ہی ہوا۔

سنہ 1992 میں بھارت نے پاکستان کو ہرایا تھا، اس بار بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔ پاکستان نے عمران خان کی قیادت میں لگاتار تین میچز جیت کر ایونٹ میں کم بیک کیا تھا اور 2022 میں بھی ایسا ہی رہا۔ پاکستان سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہی جیتا تھا اور کیویز نے ہی پہلے بیٹنگ کی تھی، جبکہ 2022 کے ورلڈکپ میں ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے قومی ٹیم فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ دوسری جانب ایونٹ کے دوسرے سیمی فائنل میں انگلینڈ نے بھارت کو 10 وکٹوں سے شکست دیکر فائنل کیلئے کوالیفائی کر لیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ عوامل ہیں جس کی بنیاد پر کرکٹ تجزیہ کار اور سابق کھلاڑی اس ورلڈکپ کو پاکستان کیلئے اہم قرار دے رہے ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بابر اعظم کی دلکش کور ڈرائیو نصابی کتاب کا حصہ بن گئی

قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی دلکش اسٹروکس کی دنیا معترف اور خاص کر کور ڈرائیو کی دیوانی ہے۔ دنیا بھر کے کمنٹیٹرز اپنے تبصرے میں نوجوان پلیئرز کو ان کے کور ڈرائیو کو دیکھ کر سیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اب ان کا ڈرائیو حقیقی معنوں نصابی کتاب کا حصہ بن گیا ہے۔ اس سوال کا اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہے، اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وفاقی تعلیم بورڈ کی نویں جماعت کی فزکس کی کتاب میں اس متعلق سوال موجود ہے۔ طلبہ سے پوچھا گیا ہے۔ اگر بابر اعظم 150 جے کی حرکی توانائی سے 120 گرام وزن والی گیند کو کور ڈرائیو پر ماریں گے تو گیند کس رفتار سے بانڈری لائن تک پہنچے گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

شاہین شاہ آفریدی کیلئے بڑا اعزاز، کرکٹر آف دی ایئر کا ایوارڈ اپنے نام کر لیا

پاکستان کے باؤلنگ اسٹار شاہین شاہ آفریدی کو سال 2021 میں ان کی شاندار کارکردگی کے باعث ’کرکٹر آف دی ایئر‘ کے اعزاز سے نواز دیا گیا۔ تباہ کن باؤلنگ، رفتار اور سوئنگ کے شاندار مظاہرے کے ساتھ 2021 میں پاکستانی فاسٹ باؤلر شاہین شاہ آفریدی کی کارکردگی یادگار رہی۔ اسپیڈ اسٹار نے گزشتہ سال 36 عالمی میچز میں 22.20 کی اوسط کے ساتھ 78 بلے بازوں کو اپنی خطرناک گیند بازی کا نشانہ بنایا، اس دوران انہوں نے ایک میچ میں بہترین باؤلنگ کرتے ہوئے 51 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ بھی دکھائی۔ آئی سی سی کرکٹر آف دی ایئر کے طور پر ’سر گارفلیڈ سوبرز ٹرافی‘ جیتنے والے شاہین شاہ آفریدی نے گزشتہ سال تینوں طرز کی کرکٹ میں دنیا کے بہترین بلے بازوں کو اپنی باؤلنگ سے پریشان کیے رکھا، خاص طور پر گزشتہ سال متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انہوں نے باؤلنگ میں اپنی مہارت سے پوری دنیا کو متاثر کیا۔

پاکستانی فاسٹ باؤلر پورے سال مختصر ترین دورانیے کی طرز کی کرکٹ میں چھائے رہے، انہوں نے آئی سی سی کے میگا ایونٹ میں پاکستان کے سیمی فائنل تک کے سفر میں 6 میچوں کے دوران 7 وکٹیں حاصل کیں، میچ کے آخری اوورز میں اپنی زبردست باؤلنگ کے ساتھ 21 میچوں میں 23 وکٹیں اپنے نام کیں۔ انہوں نے 2021 میں طویل دورانیے کی کرکٹ کے میدان میں بھی اپنی دھاک بٹھائے رکھی گزشتہ 9 میچوں میں انہوں نے تباہ کن باؤلنگ کرتے ہوئے 17.06 کی بالنگ اوسط کے ساتھ 47 کھلاڑیوں کو میدان بدر کیا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے ہائی وولٹیج ٹاکرے میں شاہین شاہ آفریدی نے گیند بازی میں اپنی مہارت کا خوبصورتی سے مظاہرہ کیا اور بھارتی بلے بازوں کو بے بس کیے رکھا۔ انہوں نے پہلے تجربہ کار بھارتی اوپنر روہت شرما کو آؤٹ کیا، پھر کے ایل راہول کو اپنی خطرناک باؤلنگ کا نشانہ بنایا جس کے بعد پورے میچ میں بھارت سنبھل نہیں پایا اور کسی بھی عالمی کپ میں پاکستان کے ہاتھوں اپنی پہلی شکست کا شکار ہوا، اس کے بعد آخری اوورز کے دوران انہوں نے بھارتی کپتان ویرات کوہلی کو بھی آؤٹ کیا تھا۔

میگا ایونٹ کے سب سے بڑے مقابلے کے بعد بھارتی کپتان ویرات کوہلی بھی شاہین شاہ آفریدی کی شاندار باؤلنگ کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ بھارتی کپتان نے فاسٹ باؤلر کی گیند بازی کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ شاہین شاہ آفریدی کی باؤلنگ میچ شروع ہوتے ہی ہمیں دباؤ میں لے آئی، انہوں نے میچ کے دوران جس طرح کی لائن و لینتھ، رفتار کے ساتھ باؤلنگ کی اس کا سامنا کرنا آسان نہیں تھا۔ ’سر گارفیلڈ سوبرز ٹرافی فار انٹرنیشنل کرکٹ کونسل مینز کرکٹر آف دی ایئر‘ کے لیے فاسٹ باؤلر شاہین شاہ آفریدی اور وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان کے علاوہ انگلینڈ کے کپتان جو روٹ اور نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن بھی شامل تھے۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال متعدد اعزازات اپنے نام کرنے والے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم انٹرنیشنل کرکٹ کونسل مینز ون ڈے کرکٹر آف دی ایئر کا ایوارڈ بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ گزشتہ روز انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے قومی ٹیم کے نوجوان وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان کو سال کا بہترین ٹی 20 کرکٹر قرار دیا تھا۔

بشکریہ ڈان نیوز

آئی سی سی کا ون ڈے کرکٹر آف دی ایئر کا ایوارڈ بابر اعظم کے نام

سال بھر میں متعدد اعزازات اپنے نام کرنے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے مینز ون ڈے کرکٹر آف دی ایئر کا ایوارڈ بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ آئی سی سی نے اپنے بیان میں کہا کہ حالانکہ بابر نے پورے سال میں صرف 6 ایک روزہ میچز کھیلے لیکن انہوں نے پاکستان کے لیے ایک روزہ میچز کی دو سیریز میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ 6 ایک روزہ میچز میں بابر نے 67.50 کی اوسط سے 405 رنز بنائے۔ آئی سی سی کے کرکٹر آف دی ایئر کے ایوارڈ کے لیے بابر اعظم کے مدِ مقابل بنگلہ دیش کے شکیب الحسن، جنوبی افریقہ کے جینیمن ملان اور آئرلینڈ کے پاؤل اسٹرلنگ تھے۔ بابر نے سب سے زیادہ 228 رنز جنوبی افریقہ کے خلاف 3 ایک روزہ سیریز میں بنائے جس میں پاکستان نے 2 کے مقابلے 1 میچ سے کامیابی حاصل کی تھی۔

اس کے بعد انگلینڈ کے خلاف 3 ایک روزہ میچز کی سیریز میں پاکستان کو کلین سوئپ شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم بابر نے مجموعی طور پر 177 رنز اسکور کیے تھے۔ اس موقع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بابر اعظم نے اپنے مداحوں، آئی سی سی، پاکستان کرکٹ بورڈ اور اپنی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ٹیم نے مجھے سپورٹ کیا ان کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا اور مجھے ایسی ٹیم پر فخر ہے۔ بابر نے کہا کہ میرے لیے گزشتہ سال کی بہترین اننگز انگلینڈ کے خلاف 158 رنز کی اننگ تھی جہاں مجھے مشکل پیش آرہی تھی لیکن اس اننگ سے اعتماد ملا۔ اسی طرح جنوبی افریقہ میں جیتنا ایک مشکل کام ہے، مختلف پچز ہوتی ہیں، ان کی بولنگ بہت معیاری ہے لیکن وہاں جا کر سیریز کے جیتنے سے ہمیں بہت مومینٹم حاصل ہوا اور اس سے بحیثیت ٹیم اور بحیثیت کپتان مجھے بہت اعتماد ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ میری کوشش ہوتی ہے جس ملک میں جائیں وہاں جا کر ان کے خلاف رنز کیے جائیں۔

بشکریہ ڈان نیوز

پاک بھارت میچ ٹی ٹوئنٹی کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا مقابلہ بن گیا

بھارتی میڈیا نے کہا ہے کہ حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مقابلہ ٹی ٹوئنٹی کی تاریخ کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا میچ بن گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاک بھارت میچ 16 کروڑ 70 لاکھ ناظرین نے براہ راست دیکھا۔ بھارتی میڈیا نے یہ بات براڈ کاسٹ ریسرچ کونسل (بی اے آر سی) کے اعدادوشمار کے حوالے سے بتائی۔ ان کے مطابق مذکورہ تعداد میں سے میچ دیکھنے والے ناظرین کا کم سے کم دورانیہ ایک منٹ رہا ہے۔ براڈ کاسٹر کے مطابق اب تک ٹورنامنٹ میں میچز دیکھنے والے ناظرین کی مجموعی تعداد 23 کروڑ 80 لاکھ رہی ہے۔ اس سے قبل ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2016 میں بھارت اور ویسٹ انڈیز کے درمیان سیمی فائنل میچ دیکھنے والے ناظرین کی تعداد 13 کروڑ 60 لاکھ رہی تھی تاہم انڈین میڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ ٹی ٹوئنٹی میچ نے تاریخ رقم کر دی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

شاہین آفریدی کا بھارت کیخلاف اسپیل ورلڈ کپ کا بہترین لمحہ قرار

انڈیا کے خلاف میچ میں شاہین آفریدی کی جانب سے کرایا گیا سپیل انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ’پلے آف دی ٹورنامنٹ‘ کے طور پر منتخب کیا ہے۔ ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کے پہلے میچ میں شاہین شاہ آفریدی نے ابتدائی اوورز میں انڈیا کی دو اہم وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس میچ میں پاکستان نے انڈیا کو دس وکٹوں سے شکست دی تھی۔ انڈین ٹیم ورلڈ کپ کے لیگ راؤنڈ سے ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی تھی جب کہ پاکستانی ٹیم سیمی فائنل مرحلے تک پہنچی تھی جہاں اس کے مقابلے میں آسٹریلیا کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔  آئی سی سی کی جانب سے ایک ٹویٹ کے ذریعے ’پلے آف دی ٹورنامنٹ‘ کے طور پر شاہین آفریدی کے ابتدائی سپیل کو فاتح قرار دیا گیا تو شائقین کرکٹ خصوصا پاکستانی ٹویپس نے اسے ’کامیابی کا درست حقدار‘ بھی قرار دیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو اس سے قبل ’مین آف دی ٹورنامنٹ‘ کے طور پر آسٹریلین ڈیوڈ وارنر کے تقرر پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اس فیصلے پر دعمل دینے والوں کا موقف تھا کہ سیمی فائنل تک بنائے گئے رنز کے ساتھ ٹورنامنٹ کے ٹاپ سکورر رہنے والے بابراعظم اس بات کے زیادہ حقدار تھے کہ انہیں پلیئر آف دی ٹورنامنٹ قرار دیا جاتا۔

بشکریہ دنیا نیوز

ہم پاکستان کے خلاف محض ایک میچ نہیں بلکہ بہت کچھ ہارے ہیں

غالباً جون کے دنوں کی بات ہے۔ میں اور میری اہلیہ کلکتہ میں بڑے اپارٹمنٹ کی تلاش میں تھے اور اس تلاش میں ہم شہر کے مضافات میں ایک نامور بلڈر کی زیرِ نگرانی بننے والے رہائشی منصوبے کا جائزہ لینے پہنچے۔ نفیس پہناوے میں ملبوس مارکیٹنگ منیجر صاحب نے ہمیں منصوبے کی خصوصیات گنوانے اور سائٹ کا دورہ کروانے کے بعد اپنے پُرتعیش دفتر میں کافی پینے کی پیش کش کی اور ہمیں اطمینان دلاتے ہوئے گویا ہوئے کہ، ‘ہم صرف مہذب اور پڑھے لکھے افراد کو اپنا گاہک بنا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو تو بالکل بھی نہیں’۔ میں نے یہ بات سن کر آدھے سیکنڈ میں ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ میرا یہاں اب کوئی کام نہیں۔ جب میں اور میری اہلیہ نظروں کے تبادلے کے بعد منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر دفتر سے اٹھ کر جانے لگے تو میں نے یہ نوٹ کیا کہ منیجر سے بات کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنے والی ایک اور فیملی بھی صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دیوتا گنیش کی چراغوں سے سجی مورتی کے پاس سے گزرتے ہوئے ہم سے پہلے ہی دفتر سے باہر نکل گئی۔

باہر جب میں گاڑی کا دروازہ کھول رہا تھا اس وقت وہ لوگ بھی اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ میں نے ان کی گاڑی میں ایک عمر رسیدہ باحجاب خاتون کو بھی دیکھا جو ضرور وہاں موجود آدمی یا عورت میں سے کسی ایک کی والدہ ہوں گی۔ یہ نہ تو آج کا اتر پردیش ہے اور نہ گودھڑا واقعے کے بعد کا گجرات تھا۔ یہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت بھی قائم نہیں۔ یہ تو وہ ریاست ہے جہاں حکومت کو ‘اقلیت کو خوش کرنے’ کا ‘مجرم’ ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ 2021ء کے اس وقت کے کلکتہ کا تذکرہ ہو رہا ہے جب ریاستی انتخابات میں تری نامول کانگریس کی شاندار کامیابی کو مشکل سے ایک ماہ کا عرصہ بھی نہیں ہوا تھا۔ اس خاندان کے سامنے میرا سر شرم سے جھک گیا۔ میں ان کے سامنے خود کو شرمسار محسوس کرنے لگا تھا لیکن حسبِ معمول میں نے آرام دہ ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں سوار ہونے کے بعد کھڑکیوں کے شیشے چڑھائے اور آگے بڑھ گیا۔ میں نے اس روز شام کے پہر خود سے پوچھا کہ نئے گھر کے متلاشی اس نوجوان جوڑے سے میں کس کی طرف سے معافی مانگوں؟ شاید مجھے اس مارکیٹنگ والے بندے کی طرف سے مانگنی چاہیے جو ممکنہ طور پر اپنے باس کی ہدایات پر عمل کر رہا تھا۔

مگر کیا مجھے ہماری خودمختار سوشلسٹ سیکولر جمہوری مملکت کے وزیرِاعظم کی جانب سے بھی معافی نہیں مانگنی چاہیے جنہوں نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کی شناخت ان کے کپڑوں سے ہی کی جاسکتی ہے؟ کیا مجھے اس ملک کے ہر باسی کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جنہوں نے گزشتہ برس مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور پھر جب 2021ء میں کمبھ میلہ وائرس کے شدید پھیلاؤ کا باعث بنا تب ان کی سوچ کا زاویہ ہی بدل گیا؟ کیا مجھے یونین وزیرِ داخلہ کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جنہوں نے بنگلادیشی مہاجرین کو ‘دیمک’ پکارا تھا؟ کیا مجھے اپنے ان ‘دوستوں’ کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جو روزانہ واٹس ایپ گروپس میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں؟ کیا مجھے اس پورے نظام کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جو مسلمانوں کو برملا انداز میں بُرا بھلا کہنے اور ان کی نسل کشی کا مطالبہ کرنے والے کٹر دائیں بازو والوں کو اس ملک میں آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے کی اجازت دیتا ہے؟

اونچی ذات کا ہندو ہونے کے ناطے 2021ء کے اس بھارت میں اس مسلمان خاندان سے مجھے کتنی باتوں کی معافیاں طلب کرنی چاہئیں؟ دراصل جب ٹی20 ورلڈکپ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارتی ٹیم کی بدترین شکست پر مبیّنہ طور پر جشن منانے والے بھارت کے ایک طبقے خصوصاً کشمیری مسلمانوں سے متعلق سوشل میڈیا پر غم و غصہ اور اس موضوع پر چند حلقوں کی جانب سے جاری عوامی مباحثہ دیکھا تو مجھے کلکتے کے اس واقعے کی یاد تازہ ہو گئی۔ پتا چلا ہے کہ کشمیر پولیس نے پاکستان کی فتح کا جشن منانے اور بھارت مخالف نعرے لگانے پر Unlawful Activities Prevention Act (یو اے پی اے) جیسے سیاہ قانون کے تحت چند مقامی طلبہ پر مقدمہ درج کیا ہے جبکہ راجستھان میں ایک اسکول ٹیچر کو پاکستان کی جیت پر خوشی کا اظہار کرنے پر نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی کھیل میں آپ کس ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں، یہ مکمل طور پر آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔

مجھے یاد ہے کہ بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان ایڈن گارڈنز میں کھیلے جانے والے ایک روزہ میچ کے دوران تقریباً ایک لاکھ تماشائیوں نے محض ساروو گانگولی کو بھارتی ٹیم میں شامل نہ کرنے پر جنوبی افریقہ کو سپورٹ کیا تھا۔ جب بھی گریم اسمتھ ظہیر خان کی گیند کو باؤنڈری کے پار بھیجتے تو تماشائیوں میں خوشی کی لہر دوڑ اُٹھتی۔ اس دن بھاری شکست کے بعد میدان سے واپسی پر طیش میں آئے ہوئے گریگ چیپل نے اسٹیڈیم کے باہر کھڑے شائقین کو نازیبا اشارے کر کے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔ کیا ان تماشائیوں کو بھارت مخالف یا قوم دشمن قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہمیں خود سے لازماً یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارتی مسلمان اس ملک میں خود کو تنہا کیوں محسوس کرنے لگے ہیں؟ میں نے اوپر جو واقعہ بیان کیا وہ کلکتہ میں پیش آیا تھا، مگر تصور کیجیے کہ آج فیض آباد یا گورکھ پور میں ایک عام مسلمان کی حالت کیا ہو گی؟

کیا ہم بطور اکثریت کبھی یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک ایسی حکومت کے اقتدار میں بھارتی مسلمانوں کے لیے رہنا کس قدر دہشت انگیز ہو سکتا ہے جس نے بینگلور کے نوجوان رکن پارلیمنٹ جیسے دائیں بازو کے کٹر پسندوں کو لاڈلا رکھا ہوا ہے؟ بھارتی مسلمانوں کے لیے روزمرہ کا استحصال، حملے، تشدد کے ذریعے قتل کر دینے کے واقعات، نفرت انگیز تقاریر اور قتل کی کھلے عام دھمکیاں اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ یوں سمجھیے کہ اس ملک میں ہر روز انہیں خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کروایا جاتا ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ غزالہ جمیل کہتی ہیں کہ ‘ان واقعات کے پیچھے تصور یہی تھا کہ مسلمان ہونے کے ناطے آپ کو کہیں بھی کسی بھی وقت نشانہ بنایا جاسکتا ہے’۔ اور اگر انہیں تنہا کر دینے کے عمل کا نتیجہ  پاکستان کی فتح کے مبیّنہ جشن کی صورت میں برآمد ہوا ہے تو اس کا الزام کس پر عائد ہونا چاہیے؟

یہ جو کھیل ہوتا ہے، یہ رنگ، نسل یا شناخت کے تضادات سے ماورا ہوتا ہے۔ بھارت میں کرکٹ کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں جب فرقہ وارانہ تناؤ اپنے عروج پر تھا اس وقت بھی محمد اظہرالدین پر کوئی کیچڑ نہیں اچھالا کرتا تھا۔ کشمیر سے کنیا کماری تک شائقین کرکٹ مذہبی تفریقات کو ایک طرف رکھ کر اظہرالدین کو کلائی کا شاندار طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اور اسی طرح سچن کی اسٹریٹ ڈرائیو دیکھ کر خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔ اگر تھوڑا اور ماضی میں جائیں تو پائیں گے کہ نواب آف پتوڈی، وہ مسلمان کپتان تھے جن کی قیادت میں بھارت (کی ٹیم) نے غیر ملکی میدانوں پر عزت کمانا شروع کی تھی۔ کیا افغانستان میں پیدا ہونے والے سلیم درانی سے 60ء اور 70ء کی دہائی میں شائقین کی محبت مذہبی شناخت کی محتاج تھی؟ ان کی ٹیم میں سلیکشن نہ ہونے پر بمبئی میں ‘No Durrani, No Test’ کے پلے کارڈز دکھانے والے ناراض شائقین کا مجمع صرف مسلمانوں پر مشتمل تھا؟

کیا کبھی ساروو کی زیرِ کپتانی ٹیم میں شامل خان، پٹھان اور کیف کے نام والے کھلاڑیوں کو پاکستان کے خلاف کھیلتے وقت کبھی کسی قسم کی دشواری کا سامنا کرنا پڑا؟ یہ ساری باتیں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ جو کبھی جڑا تھا وہ کہیں ٹوٹ سا گیا ہے۔ محمد شامی پر ہونے والے زبانی حملے، بی سی سی آئی اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کی خاموشی اور اقلیتی طلبہ کو پاکستان کی جیت کا ‘جشن’ منانے پر سزا دینے کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے پاکستان کے خلاف ایک میچ ہی نہیں ہارا بلکہ ہم بہت کچھ ہار بیٹھے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی قومی شناخت کو بھی کھو بیٹھے ہیں۔

یہ مضمون سب سے پہلے دی وائر اور بعدازاں ڈان، ای او ایس میں 14 نومبر 2021ء کو شائع ہوا۔

اندرادیپ بھٹچاریہ

بشکریہ ڈان نیوز

رضوان کی طرف سے تحفے میں دیے گئے قران کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں : میتھیو ہیڈن

پاکستان ٹیم کے بیٹنگ کنسلٹنٹ میتھیو ہیڈن آج کل قران کا مطالعہ کر رہے ہیں اور مقدس کتاب کا انگریزی ترجمہ انہیں پاکستان کے وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان نے تحفے میں دیا ہے۔ آسٹریلوی ادارے ’نیوز کور‘ کے مطابق ہیڈن کے ہوٹل کے کمرے کا دروازہ بجا اور ایک شخص کمرے میں قرآن کے ساتھ داخل ہوا۔ میتھیو ہیڈن نے انٹرویو کے دوران ’نیوز کور‘ کو بتایا کہ ’وہ رضی (رضوان) تھا اور مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ وہ ایک خوبصورت لمحہ تھا جو میں کبھی نہیں بھولوں گا۔‘ سابق آسٹریلوی کرکٹر کا مزید کہنا تھا کہ ’میں ایک عیسائی ہوں لیکن اسلام کے لیے تجسس رکھتا ہوں، ایک پیغمبر یسوع مسیح کی پیروی کرتا ہے تو دوسرا پیغمبر اسلام کی اور دونوں (مذہب) ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ 

لیکن انہوں نے مجھے قرآن کا انگریزی ترجمہ تحفتاً دیا۔‘  ’ہم آدھے گھنٹے فلور پر بیٹھے اور اس پر بات کی۔ میں روز اسے تھوڑا تھوڑا پڑھ رہا ہوں۔‘ انہوں نے محمد رضوان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’رضی میری پسندیدہ شخصیت ہے اور ایک چیمپیئن آدمی ہیں۔‘ میتھیو ہیڈن ٹی 20 ورلڈ کپ سے کچھ ہفتے قبل پاکستان کے بیٹنگ کنسلٹنٹ مقرر کیے گئے تھے۔ انہوں نے انٹرویو میں پاکستانی کپتان بابر اعظم کی بھی تعریف کی اور کہا کہ ’بابر ایک اچھا کھلاڑی ہے۔ گذشتہ رات وہ میرے پاس آئے اور کہا آپ کو کیا لگتا ہے میں کیسا جا رہا ہوں کوچ؟‘ ہیڈن کہتے ہیں کہ بابر اعظم کی کوچنگ کی جا سکتی ہے کیونکہ وہ کھلے ذہن کے مالک ہیں۔

بشکریہ اردو نیوز

آصف علی نے قرآن پاک کی کونسی آیت شیئر کی؟

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں افغانستان کے خلاف میچ میں ناقابلِ شکست اننگز کھیلنے والے آصف علی نے اپنی کامیابی کے بعد قرآن پاک کی آیت سوشل میڈیا پر شیئر کر دی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آصف علی نے اپنی تصویر شیئر کی جوکہ گزشتہ روز اُنہیں ’پلیئر آف دی میچ‘ ملنے پر لی گئی تھی۔ آصف علی نے اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے ٹوئٹ میں قرآن پاک کی آیت لکھی کہ ’اور اللّہ تعالیٰ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔‘ قومی کرکٹر نے اپنے ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ ’میری کامیابی صرف اللّہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ رات افغانستان سے میچ میں آصف علی نے 19ویں اوور میں چار چھکے لگا کر پاکستان کو فاتح بنا دیا ۔ افغانستان کے خلاف جارحانہ اننگز کی بدولت پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کرنے والے آصف علی کا کہنا ہے کہ خود پر اعتماد تھا کہ ٹارگٹ پورا کر لیں گے، شعیب ملک سے ایک اوور پہلے کہا تھا کہ آخری اوور میں 25 رنز بھی ہوئے تو بنا لیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ