مائیک ٹائی سن کی دوبارہ رنگ میں واپسی

معروف امریکی باکسر مائیک ٹائی سن ایک مرتبہ پھر باکسنگ رنگ میں اترنے کے لیے تیار ہیں جس کے لیے انھوں نے اپنا 100 پونڈ وزن بھی کم کر لیا ہے۔ مائیک ٹائی سن رائے جونز سے لڑنے کے لیے تیار ہیں اور ایک ٹی وی انٹرویو میں شرٹ اتار کر اپنی باڈی دکھا دی۔ باکسنگ کی دُنیا کے لیجنڈ باکسر مائیک ٹائی سن کے مداح ایک بار پھر اپنے فیورٹ باکسنگ کو رنگ میں ایکشن میں دیکھنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ وہ لاس اینجلس میں آٹھ راؤنڈ کے نمائشی مقابلے میں ایک اور نامور سابق باکسر رائے جونز جونیئر کے مدمقابل آرہے ہیں۔

صدی کے سب سے عظیم باکسر محمد علی کے بعد جس باکسر نے شائقین باکسنگ کی توجہ حاصل کی وہ مائیک ٹائی سن ہیں۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں باکسنگ رنگ میں ان کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر پاتا تھا۔ پروفیشنل کیریئر شروع کرنے کے پانچ سال بعد اُنہیں اپنے 38ویں مقابلے میں پہلی مرتبہ شکست بسٹر ڈگلس کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ انھوں نے 38 برس کی عمر میں باکسنگ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی، جبکہ انھوں نے اپنا آخر مقابلہ سال 2005 میں لڑا تھا۔ اُن کے حریف 51 سالہ رائے جونز جونیئر بھی 1990 کی دہائی میں اپنی کیٹگری کے نامور باکسر رہے ہیں۔ تاہم اب باکسنگ شائقین کو انتظار ہے کہ اس نمائشی ٹاکرے میں کون فاتح ہوتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

محمد علی، ان جیسا کوئی باکسر پیدا ہوا اور نہ ہو گا

محمد علی (17جنوری1942ء تا 3جون 2016) دنیا کے عظیم ترین باکسر تھے۔ ان جیسا کوئی باکسر پیدا ہوا اور نہ ہو گا۔ انہوں نے جب بھی رنگ میں قدم رکھا تو حریف کو چاروں شانے چت کرنے کے بعد ہی باہر نکلے۔ جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو باکسنگ رنگ میں بھی کسی کی پرواہ کئے بغیر رب کریم کے سامنے سر جھکا دیتے تھے، پہلے نماز کا فرض ادا کرتے۔ محمد علی نماز کی ادائیگی کے بعد ہی رنگ میں اترتے تھے۔ وہ دیر تک اس دیوار کو چومتے رہتے، جس دیوار پر رب کریم یا حضرت محمد ﷺ کا مبارک نام لکھا ہوتا تھا، ایسی دیواروں کے سامنے سے بھی جھک کر گزرتے تھے ۔ انہوں نے لونی علی (1986ء تا2016ء ) کو اپنی شریک حیات چنا، قبول اسلام کے بعد ان کے بچے بھی پکے مسلمان ہیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ بچوں میں لیلیٰ علی سب سے بڑی ہیں ۔ اسد امین، مریم علی، حنا علی، رشیدہ علی، جمیلہ علی، مایا علی، خلیہ علی اور محمد علی جونیئر ان سے چھوٹے ہیں۔

بائیک چور نے باکسر بنا دیا
محمد علی کے دل میں بچپن سے ہی کچھ کرنے کی امنگ تھی، کچھ نیا کرنے کی۔ وہ سر اٹھا کر جینا چاہتے تھے، امریکہ میں سیاہ فاموں کے لئے سر اٹھا کر جینا قدرے ناممکن تھا۔ تاہم ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ عظیم ترین باکسر بن جائیں گے اور باکسنگ ہی ان کا ذریعہ معاش ہو گی۔ دوسرے سیاہ فاموں کی طرح وہ بھی کسی اچھے بزنس کی تلاش میں تھے۔ اسی لئے بارہ برس کی عمر (1954ء میں) وہ سیاہ فاموں کو برگر، سموسے اور پاپ کارن کا بزنس سکھانے کے لئے لوئس ویل میں بلائے گئے ایک اجلاس میں شریک ہوئے۔ سرخ اور سفید رنگ کی پسندیدہ بائیک باہر کھڑی کر کے خود اندر چلے گئے۔ واپسی پربائیک کو غائب پایا ۔ کوئی چور لے اڑا تھا۔ قریبی موجود ”کولمبیا جم‘‘ کے مالک جو مارٹن نے انہیں پولیس سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔

اپنی خود نوشت میں محمد علی لکھتے ہیں کہ ”میں بائیک کی تلاش میں ہر جگہ دوڑ رہا تھا۔ وہ تو نہ ملی لیکن کہیں دور، کسی رنگ میں ہونے والے باکسنگ میچ کی آوازیں ضرور سنائی دیں ۔ ‘دھم دھم‘ گھونسے پڑ رہے تھے۔ میں باکسنگ رنگ کی جانب لپکا۔ یہ آواز میرے دل کو اس قدر بھائی کہ میں بائیک کو بھول گیا ‘‘۔ مارٹن نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا ، ” کوئی بات نہیں یہاں تو روزانہ ہی باکسنگ کا میلہ لگتا ہے، ہر سوموار سے جمعہ تک، چھ سے آٹھ بجے تک متعدد باکسرز یہیں ہوتے ہیں۔ اگر آپ بھی باکسنگ کھیلنا چاہتے ہیں تو یہ رہا فارم!‘‘انہوں نے داخلہ فارم ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ ایک مرتبہ رنگ میں داخل ہونے کے بعد محمد علی عالمی چیمپئن بن کر ہی رنگ سے باہر نکلے ۔

پہلے مقابلے میں ہار
پہلی بار وہ ایک بڑے باکسر سے مقابلے کے لئے رنگ میں اترے ۔ اس تجربہ کار باکسر نے مار مار کر ان کی ناک موٹی کر دی تھی، جگہ جگہ سے کھال پھٹ گئی تھی اور خون رس رہا تھا۔ ایک ہی منٹ میں ایسی درگت بنی کہ انہیں رنگ سے نکال دیا گیا ۔ یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے ہر کسی کو ہرانے کاعزم کیا تھا۔ وہ ایک ہی رائونڈ میں باکسنگ کی باریکیاں سمجھ گئے تھے۔ کس باکسر کو کہاں مارنا ہے ، وہ سب جان گئے تھے۔ ٹھیک چھ ہفتے بعد وہ دوبارہ رنگ میں اترے ۔ مقابلے پر تجربہ کار باکسر رونی او کیفی تھے۔ لیکن محمد علی فاتح بن کر نکلے ۔ یہ مقابلہ ان کی ریاست کینٹکی میں ٹی وی پر دکھایا گیا ، شہر بھر میں ان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ ان کے والد کاسیئس کلے سینئرنے محمد علی کی باکسنگ کا انداز دیکھتے ہی کہہ دیا تھا ، ”میرا بیٹا مستقبل کا عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن بنے گا!‘‘ 1954ء میں پہلے اہم مقابلے میں کامیابی کے بعد انہیں عالمی چیمپئن بننے کا یقین ہو گیا تھا۔

جہاز کے سفر سے ڈر لگتا تھا
اسلام لانے سے پہلے باکسنگ کی دنیا کے بادشاہ محمد علی فضائی سفر سے ڈرتے تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ ”اگر جہاز گر گیا تومیں موت کے منہ میں چلا جائوں گا۔ ٹرین کے نیچے زمین ہوتی ہے ،جہاز کے نیچے تو کچھ بھی نہیں ہوتا، ایک بار گر گیا تو زندہ نہیں بچ سکتا‘‘۔ حالانکہ انہوں نے فوجی مرکز سے پیرا شوٹ بھی خرید لیا تھا لیکن پھر بھی فضائی سفر پر راضی نہ ہوئے ۔ 1960ء میں ”روم اولمپکس ‘‘ ہو رہے تھے۔ ان کا جانا بھی ضروری تھا، فضائی سفر ناگزیر تھا۔ محمد علی نے پہلے تو انکار کر دیا لیکن دنیا ان کے میچز دیکھنے کے لئے بے تاب تھی اس لئے جانا پڑا ۔ واپسی پر دل غم زدہ تھا ،وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ”میں نے سونے کا تمغہ دریائے اوہائیو میں پھینک دیا، میرا حریف مجھ سے یہ تمغہ چھیننا چاہتا تھا مگر میں نے اسے مار مار کر موت کے قریب تر کر دیا ۔ یہ تمغہ دریا میں پھینکنے کے بعد مجھے سکون مل گیا ہے۔ اس سے مجھے نئی طاقت ملی‘‘۔

ریسلر جارجس جارج ویگنر سے ملاقات 1961ء
باکسر محمد علی مختصر سے عرصے میں چھ عالمی مقابلے جیت چکے تھے، لاس ویگاس میں ساتویں مقابلے میں شرکت کے موقع پر جارجس جارج ویگنر سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات نہایت ہی حیرت ناک ماحول میں ہوئی۔ جارجس نے رنگ میں اعلان کیا کہ اگر باکسر محمد علی مجھے ہرا دے تو میں رنگ میں گھٹنوں کے بل چلوں گا اور ٹنڈ کرا لوں گا۔ مجھے ہرانا ناممکن ہے ، میں ہی دنیا کا سب سے بڑا ”فائٹر ‘‘ ہوں۔ لیکن یہ بات مذاق میں کی گئی تھی ۔ باکسر محمد علی بھی ان سے ملنا چاہتے تھے۔ دونوں کی یہ ملاقات زبردست رہی۔ باکسر محمد علی کو یہ واقعہ دیر تک یاد رہا۔

باکسنگ کی دنیا کا ناسٹر ڈیمس 1962ء
اس نے وارنر کو توقع سے پہلے چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ فروری 1962ء تک کئی اہم عالمی مقابلوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد اسی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اسے باکسنگ کی دنیا کا ناسٹر ڈیمس بھی کہا جانے لگا تھا ۔

ہنری کوپر اور محمد علی
محمد علی نے ہنری کوپر کو چیلنج دیا کہ وہ ا سے چند ہی رائونڈز میں ہرا دے گا ، ناکامی کی صورت میں اپنے جسم پر ایک ہزار زخم لگانے کے بعد تڑپ تڑپ کر موت قبول کر لے گا۔ چیلنج قبول کرنے کے بعد جب میچ میں شروع ہوا تو ہنری نے دائیں ہاتھ کا گھونسہ کھینچ کرمارا ، محمد علی فرش پر گر گیا، کھال پھٹ گئی ۔ گھنٹیاں بجنے لگیں لیکن اس کا ٹرینر سب جانتا تھا ۔ اس نے ایمپائر سے کہا کہ محمد علی کے گلوز پھٹ چکے ہیں ، انہیں بدلا جائے۔ نئے گلوز کی تلاش شروع کی گئی اس دوران محمد علی کو جوس پلایا گیا۔ زخموں پر برف لگائی گئی۔ گلوز تو نہ ملے لیکن کچھ دیر بعد مقابلہ شروع ہو گیا۔ جونہی گھنٹی بجی، محمد علی شیر کی مانند لپکا، ایک ہی گھونسا کھا کر ہنری زمین پر پڑا تھا۔ اب خون بہنے کی باری ہنری کی تھی۔ہنری پھر نہ اٹھ سکا۔

سونی لسٹن سے مقابلہ 1964
سنہ 1963ء میں سونی لسٹن اور فلائیڈ پیٹرسن آمنے سامنے تھے،۔ دونوں پائے کے باکسر تھے ۔ محمد علی نے جب لسٹن کو لاس ویگاس میں دیکھا تو چلایا، ”اس بھدے گینڈے کو دیکھو! یہ تو کچھ بھی نہیں کر سکتا‘‘۔ یہ سنتے ہی لسٹن نے ڈائس کو نیچے پھینک دیا، محمد علی کی جانب لپکا اور دھمکی دی، ”سنو تم ، ایندھن کے کالے گول گپے! اگر تم دس سیکنڈ کے اندر اندر یہاں سے نہ بھاگے تو میں زبان گدی سے کھینچ کر گٹر میں پھینک دوں گا‘‘۔ محمد علی وہاں سے نکل آیا کیونکہ وہ اس قسم کی لڑائی نہیں چاہتا تھا وہ تو رنگ کا ماسٹر تھا، رنگ میں ہی جوہر دکھانا چاہتا تھا۔ لہٰذا موقع پاتے ہی لسٹن کے گھر واقع ڈینور پہنچا، جہاں دونوں میں عالمی مقابلہ کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ۔ رنگ میں لسٹن کو 22 سالہ محمد علی سے مقابلہ کرنا تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ لسٹن کو آسانی سے ہرا کر دنیا کا سب سے بڑا ہیوی ویٹ باکسر بن گیا ۔36 مقابلوں میں سے لسٹن ایک ہی ہارا تھا، وہ بھی محمد علی سے ۔ محمد علی نے مار مار کر اس کا جبڑا توڑ دیا تھا۔

کلے سے محمد علی بن گیا 1964
جب وہ مسلمان نہیں ہوا تھا تب بھی اس کی دل چسپی اسلامی تعلیمات میں بڑھتی جا رہی تھی۔ 1959ء میں نسلی تعصبات کے بعد اسلامی تعلیمات کا مطالعہ عروج پر تھا ۔ وہ یہ سمجھ گیا تھا عالمی مسائل کا حل صرف دین اسلام کے پاس ہے۔ 1961ء میں مسلمانوں کے کیمپوں میں جانے کا موقع ملا ۔ ان کیمپوں میں شرکت کرنے سے اسلام سے مزید آگاہی حاصل ہوئی۔ وہ ذہنی طور پر 1961 میں اسلام قبول کر چکا تھا۔

دنیا تباہ ہونے والی ہے: قیدی کی حیران کن بات
امریکی حکومت کی پوری کوشش تھی کہ باکسر محمد علی فوج میں بھرتی ہو کر دشمنوں کا قتل عام کرے لیکن محمد علی کہتا تھا کہ جب میں پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں، امن کی دعا کرتا ہوں تومیں کسی کا خون کیسے کر سکتا ہوں۔ اس اعتراض پر امریکی فوج سخت برہم ہوئی ۔ پولیس نے ڈرائیونگ لائسنس کی مدت ختم ہونے کا بہانہ بنا کر 1967ء میں باکسنگ لڑنے پر پابندی لگا دی اور اسے ”میامی ڈیڈ کائونٹی جیل ‘‘ بھجوا دیا ۔ اس سے ٹائٹل بھی چھین لئے گئے۔ اب وہ ایک عام آدمی تھا۔ جیل میں اسے سزائے موت کے قیدیوں کو کھانا دینے کی ڈیوٹی ملی ۔ وہاں انسانی فضلے کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ سزائے موت کے ایک قیدی نے پہچانتے ہوئے کہا، ” بہت خوب!عالمی چیمپئن ہمارے ڈنر کے لئے آیا ہے‘‘ ۔ پھر بولا، ”یہ تو قیامت کی نشانی ہے، دنیا تباہ ہونے والی ہے ‘‘۔ برٹرنڈ رسل نے کہا تھا، ”قیامت سے پہلے ہوا کی خوشبو بدل جائے گی، اور میں یہ تبدیلی محسوس کر رہا ہوں۔ وہ جلد ہی رہا ہو گیا لیکن ٹائٹل کی بحالی اور مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے سپریم کورٹ تک طویل قانونی جنگ لڑنا پڑی۔ جون 1970ء میں سپریم کورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

صہیب مرغوب

بشکریہ دنیا نیوز