میانداد بنگلور ٹیسٹ میں بار بار پوچھتے ’’تیرا روم نمبر کیا ہے‘‘، دلیپ دوشی

پاکستان کے سابق لیجینڈ کرکٹر اور سابق کپتان جاوید میاں داد فیلڈ میں ہمیشہ سے ہی اپنے طنز ومزاح کے حوالے سے مشہور رہے ہیں۔ بھارتی اخبار کے مطابق فیلڈ میں کہے جانے والے ان کے الفاظ آف سائیڈ پر ان کے بیک فٹ پنچز جتنے ہی شاندار ہوتے تھے۔ انہی میں سے ان کا ایک مشہور جملہ تھا ’’تیرا روم نمبر کیا ہے‘‘ جو انہوں نے سابق بھارتی لیفٹ آرم اسپنر دلیپ دوشی سے کہے تھے۔ جاوید میاں داد اور دلیپ دوشی کے درمیان اس گفتگو کو کئی پاکستان اور بھارتی سابق کرکٹرز نے مختلف انداز سے پیش کیا جن میں سنیل گواسکر بھی شامل ہیں۔ 1983ء میں بنگلور میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں جاوید میاں داد اور دلیپ دوشی کے درمیان اس واقعے کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے دلیپ دوشی نے بھارتی اخبار سے گفتگو کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میاں داد ایک عظیم کرکٹر تھے، بنگلور ٹیسٹ میں بار بار مجھ سے پوچھتے ’’تیرا روم نمبر کیا ہے‘‘۔

انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر جاوید میاں داد آن فیلڈ میں جارحانہ مزاج رکھتے تھے، وہ ایک عظیم بلے باز تھے، ان کا شمار دنیا کے ان بہترین کرکٹرز میں ہوتا تھا جنہیں میں نے باولنگ کی، میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ وہ میرے اچھے دوست بھی ہیں، میدان سے باہر ہم دونوں اچھے دوستوں کی طرح ہوتے تھے لیکن میدان میں ان کا کردار یکسر مختلف ہوتا تھا۔ سابق اسپنر مرلی کارتھک سے انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ جاوید میاں داد آف اسٹمپ پر کھیلنا پسند کرتے تھے۔ میں اسٹمپس کی جانب باولنگ کرتا تھا۔ میں جاوید میاں داد کو ان کے پسندیدہ شاٹس کھیلنے سے محدود رکھتا تھا اور اگر وہ اپنے پسندیدہ اسٹوکس کھیلتے تو انہیں رسک لینا پڑتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بسا اوقات وہ جھنجھلا جاتے تھے تاہم ان کے پاس مخالف کی توجہ بٹانے کیلئے ایک ہی طریقہ رہ جاتا تھا کہ وہ اسے غصہ دلائیں اور وہ اس کام میں بہت ماہر تھے، وہ کرن مورے کیساتھ ایسا کر چکے تھے، وہ ڈینس لیلی کیساتھ بھی ایسا کرچکے تھے اور میرے ساتھ بھی کئی مرتبہ یہ طریقہ آزمایا۔ دلیپ دوشی نے بتایا کہ وہ قریب کھڑے فیلڈرز کو کچھ کہتے تھے کہ وہ یہ پیغام مجھ تک پہنچائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

نفرتیں، لڑائیاں اور کرکٹ

‘کرکٹ ڈپلومیسی’ کی اصطلاح عام طور پر پاکستان اور بھارت جیسے حریف ممالک میں استعمال ہوتی ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ماضی میں کئی بار جب دونوں جوہری ملکوں کے درمیان جنگ کے خطرات منڈلائے ہیں تو پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان کھیل نے یا ان میچوں کے دوران دونوں اطراف کی قیادت کے اسٹیڈیم میں ایک ساتھ بیٹھے نظر آنے سے کشیدگی کم ہوئی ہے۔ جنوبی ایشیا میں جن ملکوں کو اندرونی خلفشار کا سامنا ہے، وہاں سفارت کاری کے ساتھ ساتھ کرکٹ بھی سیاسی، مذہبی اور سماجی خلش کو کم کرتے ہوئے متحارب اکائیوں کو متحد کرتا نظر آتا ہے۔

پاکستان کے بعد افغانستان میں بھی کرکٹ اس قدر مقبول ہو رہی ہے کہ تجزیہ کاروں کے بقول پہلی بار پشتون، تاجک، ازبک حتیٰ کہ طالبان بھی، تمام دھڑے جب افغانستان کی کرکٹ ٹیم کی بات کرتے ہیں تو گروہی صف بندی سے آگے نکل کر “ہم اور ہمارا” کا صیغہ استعمال کرتے ہیں جو بہت بڑی تبدیلی ہے۔ میرویس افغان لندن میں سینیئر صحافی اور افغان امور کے تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کے لوگ کرکٹ کو پسند کرنے لگے ہیں اور کرکٹ افغانستان میں خوشی کا بڑا ذریعہ بن رہی ہے۔ ان کے بقول، “ہمارے ہاں میوزک نہیں، کانسرٹ نہیں، شوبز نہیں، ماڈلنگ نہیں۔ اگر کوئی چیز خوشی کا سبب بن رہی ہے تو وہ کرکٹ ہے۔” وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ کرکٹ پاکستان میں پناہ لینے والے افغان خاندانوں کے ذریعے افغانستان آئی ہے لیکن اب پورا ملک اس میں دلچسپی لینے لگا ہے۔

مریالے اباسین افغانستان میں ایک ٹی وی پروگرام کے میزبان اور کرکٹ کے شوقین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ورلڈ کپ سے پہلے افغانستان کی کرکٹ ٹیم کی کامیابیوں بالخصوص پاکستان کے خلاف پریکٹس میچ میں فتح نے پورے ملک میں لوگوں کے خون گرما دیے ہیں۔ بہت جوش وخروش ہے اور اُمیدیں بڑھ گئی ہیں۔ “جن لوگوں کو افغانستان کے حالات کا پتا نہیں وہ شاید یہ بات سمجھ ہی نہیں سکتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ کرکٹ نے لوگوں کو متحد کیا ہے۔ پہلی بار کوئی ایسی چیز سامنے آئی ہے جس پر کوئی پشتون ہو، ازبک ہو یا تاجک، حتیٰ کہ طالبان، سب اس کو اپنا مان رہے ہیں اور وہ “ہم اور ہمارا” کا کلمہ استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ہماری کرکٹ ٹیم جیتی ہے۔ ہم جیت گئے ہیں۔ یہ مشاہدہ بالکل درست ہے کہ طالبان بھی کرکٹ پسند کرتے ہیں۔” وہ کہتے ہیں کہ جب افغانستان کی کرکٹ ٹیم کسی دوسرے ملک کے خلاف میچ کھیل رہی ہوتی ہے تو عام طور پر پورے ملک میں ایک پُرامن خاموشی ہوتی ہے۔ میرویس افغان کے بقول افغانستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنا سکیورٹی ہر جگہ جاتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کو سب فریق پسند کرتے ہیں۔

کرکٹ ڈپلومیسی اور پاک بھارت کشیدگی
کرکٹ نے جنوبی ایشیا کی دونوں جوہری طاقتوں – پاکستان اور بھارت – کے درمیان بھی تناؤ کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کرکٹ میچ میں شائقین کا جنون عروج پر ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کی ٹیمیں جب بھی ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتری ہیں تو سیاسی درجہ حرارت کم ہوا ہے۔ اس بارے میں سیاسی و سماجی علوم کے پاکستانی ماہر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کہتے ہیں، “کرکٹ کا بنیادی تصور جنٹلمین گیم کا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اس کھیل نے میدانوں سے نکل کر سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ 80ء کی دہائی کے اواخر میں جب پاکستان بھارت تعلقات بہت کشیدہ تھے، پاکستان کے صدر جنرل ضیاءالحق میچ دیکھنے بھارت پہنچے اور راجیو گاندھی کے ساتھ اسٹیڈیم میں بیٹھے نظر آئے۔ اس پر ‘کرکٹ ڈپلومیسی’ کی اصطلاح سامنے آئی۔ اس کے بعد پاکستان کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے ہم منصب ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ بھارت میں ہی مل بیٹھ کر سیمی فائنل دیکھا۔ اس کے علاوہ جب بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم جیتتی ہے تو اندرونی سطح پر بھی ایک قومی احساس کے ساتھ تفاخر اجاگر ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عاصم کے بقول کرکٹ پاکستان کے علاوہ افغانستان میں بھی سیاسی اور سماجی اثر و نفوذ دکھا رہی ہے۔ “افغانستان میں بھی کرکٹ انتشار کے ماحول میں یکجائی کا کام کرتی نظر آتی ہے۔ ٹیم جب جیتتی ہے تو نسلی تفاوت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ کرکٹ کے کھیل کو اپنانے کے لیے سب یکجا نظر آتے ہیں۔” گزشتہ ماہ عرب اخبار ‘گلف نیوز’ نے خبر دی تھی کہ ورلڈ کپ 2019ء کے دوران پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی ملاقات بھارت کے وزیرِ اعظم نریندرمودی سے ہو سکتی ہے۔ اخبار کے مطابق دونوں وزرائے اعظم ورلڈ کپ کے ابتدائی میچ دیکھنے کے لیے جون کے پہلے ہفتے میں انگلینڈ میں موجود ہوں گے اور برطانوی عہدیدار کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں رہنماؤں کی سائیڈ لائن ملاقات کا اہتمام ہو سکے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان بذاتِ خود عالمی شہرت حاصل کرنے والے کرکٹر ہیں جو پاکستان کے لیے 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان تھے۔

اسد حسن

بشکریہ بی بی سی اردو

بھارت کے نامور مسلمان کرکٹرز جنھوں نے اپنے شاندار کھیل کی بدولت نام کمایا

بھارت میں کئی مسلم کرکٹرز نے اپنے شاندار کھیل کی بدولت نام کمایا اور اپنے معیاری کھیل کی وجہ سے اپنا نام ہمیشہ کیلئے تاریخ کے صفحات میں لکھوا لیا۔
پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں کچھ غیر مسلم کرکٹرز نے بھی خدمات سرانجام دیں۔ ان میں ویلس میتھائس، انیل دلپت، دانش کنیریا اور یوسف یوحنا شامل ہیں۔ یوسف یوحنا نے 2004ء میں اسلام قبول کر لیا اور وہ محمد یوسف ہو گئے۔ ویلس میتھائس کی شہرت ان کی زبردست فیلڈنگ کی وجہ سے تھی لیکن وہ ایک اچھے بلے باز بھی تھے۔ انیل دلپت وکٹ کیپر بلے باز تھے لیکن وہ جلد ہی کرکٹ سے آؤٹ ہو گئے کیونکہ ان کی کارکردگی ناقص تھی۔

اس کے بعد دانش کنیریا آئے اور انہوں نے ایک عمدہ لیگ سپنر کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا۔ ان کی 250 سے زیادہ وکٹیں ہیں اور یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وسیم اکرم اور وقار یونس کے بعد سب سے زیادہ وکٹیں دانش کنیریا ہی کی ہیں۔ یوسف یوحنا ایک بہت اچھے مڈل آرڈر بلے باز تھے۔ انہوں نے اپنے دلکش کھیل سے کئی سالوں تک شائقین کرکٹ کو محظوظ کیا۔ 2004ء میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام محمد یوسف رکھا گیا۔ بھارت میں کئی مسلم کرکٹرز نے اپنے شاندار کھیل کی بدولت نام کمایا۔ ہم ذیل میں بھارت کے ان مشہور مسلمان کرکٹرز کے بارے میں اپنے ناظرین کو بتائیں گے جنہوں نے اپنے معیاری کھیل کی وجہ سے اپنا نام ہمیشہ کیلئے تاریخ کے صفحات میں لکھوا لیا۔

سید مشتاق علی
17 دسمبر 1914ء کو اندور میں پیدا ہونے والے سید مشتاق علی آل راؤنڈر تھے۔ وہ دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرتے تھے اور سلو لیفٹ آرم باؤلر بھی تھے۔ اس زمانے میں بہت کم کرکٹ کھیلی جاتی تھی۔ مشتاق علی نے 11 ٹیسٹ میچ کھیلے اور دو سنچریاں بنائیں۔ انہوں نے 32-21 رنز کی اوسط سے 612 رنز بنائے۔  انہوں نے مجموعی طور پر 226 فرسٹ کلاس میچ کھیلے اور 35.90 رنز کی اوسط سے 13213 رنز بنائے۔ ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 233 رنز تھا۔ انہوں نے 30 سنچریاں اور 63 نصف سنچریاں بنائیں۔ فرسٹ کلاس میچوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 162 تھی لیکن 11 ٹیسٹ میچوں میں صرف تین وکٹیں حاصل کر سکے۔ انہوں نے سب سے پہلا ٹیسٹ میچ 1934ء کو کولکتہ میں کھیلا اور ان کا آخری ٹیسٹ بھی انگلینڈ کے خلاف ہی تھا۔ وہ اپنے دور کے خاصے مشہور کرکٹر تھے۔ 18 جون 2005ء کو 90 برس کی عمر میں سید مشتاق علی کا اندور میں انتقال ہو گیا۔

منصور علی خان پٹودی
منصور علی خان پٹودی بھارت کے کپتان بھی رہے۔ انہیں ٹائیگر پٹودی بھی کہا جاتا تھا۔ منصور پٹودی صرف 21 برس کی عمر میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان بن گئے۔ انہیں بھارت کے عظیم ترین کپتانوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ وہ اپنے دور کے بہترین فیلڈر تھے اور ایسا آسٹریلیا کے مشہور تبصرہ نگار جان آرلٹ اور انگلینڈ کے سابق کپتان ٹیڈڈیکسٹر نے ان کے بارے میں کہا تھا۔ 5 جنوری 1941ء کو بھوپال میں پیدا ہونے والے منصور پٹودی نے 46 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 34.91 رنز کی اوسط سے 2793 رنز بنائے۔ انہوں نے چھ ٹیسٹ سنچریاں اور 17 نصف سنچریاں بنائیں۔ ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 203 رنز ناٹ آؤٹ تھا۔ انہوں نے ایک ٹیسٹ وکٹ بھی حاصل کی۔ وہ کاؤنٹی کرکٹ بھی کھیلتے رہے۔

ایک حادثے میں وہ اپنی ایک آنکھ سے محروم ہو گئے۔ خدشہ تھا کہ شاید اب ان کا کرکٹ کیریئر ختم ہو جائیگا لیکن انہوں نے کرکٹ جاری رکھی۔ مارچ 1962ء میں انہیں بھارتی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا۔ اس وقت بھارتی ٹیم ویسٹ انڈیز کے دورے پر تھی۔ اس وقت ناری کنٹریکٹر بھارتی ٹیم کے کپتان تھے۔ ویسٹ انڈیز کے باؤلر چارلی گرفتھ کی گیند لگنے سے وہ زخمی ہو گئے اور اس پر منصور پٹودی کو کپتان بنا دیا گیا۔ بھارت نے گھر سے باہر جو سیریز جیتی وہ نیوزی لینڈ کے خلاف تھی اور اس سیریز کے کپتان منصور پٹودی تھے۔ منصور پٹودی 25ء اگست 2011ء کو 70 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔

محمد اظہر الدین
محمد اظہر الدین ایک زبردست کرکٹر تھے۔ انہوں نے 47 ٹیسٹ اور 174 ایک روزہ میچوں میں بھارتی ٹیم کی قیادت کی۔ 8 فروری 1963ء کو حیدر آباد میں پیدا ہونے والے اظہر الدین نے 99 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 45.08 کی اوسط سے 6216 رنز بنائے۔ انہوں نے پہلا ٹیسٹ میچ 1984ء میں کولکتہ کے ایڈن گارڈن میں انگلینڈ کے خلاف کھیلا۔ وہ ایک دلکش سٹروک پلیئر تھے جنہوں نے گریگ چیپل، ظہیر عباس اور وشوا ناتھ کی یاد دلا دی۔ جن لوگوں نے ان کا عروج دیکھا ہے وہ ان کے کھیل کو کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ اظہر الدین وہ واحد کرکٹر ہیں جنہوں نے اپنے پہلے تین ٹیسٹ میچوں کی پہلی اننگز میں سنچری بنائی۔

اظہر الدین نے جنوبی افریقا کے خلاف اپنے آخری ٹیسٹ میں بھی سنچری بنائی۔ ٹیسٹ میں ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 199 رنز ناٹ آؤٹ تھا۔ انہوں نے 334 ایک روزہ میچ کھیلے اور 36.92 ٹیسٹ اور 21 نصف سنچریاں بنائیں جبکہ ایک روزہ میچوں میں ان کی سنچریوں کی تعداد سات تھی جبکہ انہوں نے 58 نصف سنچریاں بنائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک باکمال کرکٹر تھے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دور کے بہترین فیلڈر تھے اور انہوں نے 100 سے زیادہ کیچز پکڑے۔

ظہیر خان
ظہیر خان بہت اچھے فاسٹ باؤلر تھے۔ کیپل دیو اور سری ناتھ کے بعد انہوں نے ایک فاسٹ باؤلر کی حیثیت سے شہرت کی۔ وہ بائیں ہاتھ سے باؤلنگ کرتے تھے۔ انہوں نے 92 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 32.95 رنز کی اوسط سے 311 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے ایک اننگز میں 11 مرتبہ پانچ وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی بہترین باؤلنگ 87 رنز کے عوض سات وکٹیں ہیں۔ انہوں نے 200 ایک روزہ میچ کھیلے اور 29.11 رنز کی اوسط سے 282 وکٹیں اپنے نام کیں۔ 7 اکتوبر 1978ء کو دائم آباد ضلع احمد نگر میں پیدا ہونے والے ظہیر خان 1999ء سے 2006ء تک برودہ کی طرف سے کھیلتے رہے۔ انہوں نے کاؤنٹی کرکٹ بھی کھیلتے رہے اور 2004ء سے 2006ء تک سرے اور ورسٹر شائر کی طرف سے کھیلتے رہے۔

رانجی ٹرافی کے 2000-01ء سیزن کے فائنل میں انہوں نے مین آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کیا۔ انہوں نے 145 رنز دے کر آٹھ وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ دوسری اننگز میں انہوں نے 16 رنز دے کر آٹھ وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی باؤلنگ کی بڑی خوبی ریورس سوئنگ تھی۔ اس کے علاوہ ان کی لائن اور لینتھ بھی بڑی درست ہوتی تھی۔ ظہیر خان ضرورت پڑنے پر اچھی خاصی بلے بازی بھی کر لیتے تھے۔ 2017ء میں ظہیر خان کو بھارتی کرکٹ ٹیم کا باؤلنگ کنسلٹنٹ مقرر کر دیا گیا۔ ظہیر خان کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ وہ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے بلے بازوں کو بڑی مہارت سے آؤٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنا آخری ٹیسٹ 14 فروری 2014ء کو نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا۔

سید کرمانی
سید مجتبیٰ حسین کرمانی وکٹ کیپر بلے باز تھے اور انہوں نے بھی بھارتی ٹیم کے لئے شاندار خدمات سرانجام دیں۔ 29 دسمبر 1949ء کو پیدا ہونے والے سید کرمانی نے 24 جنوری 1976ء کو اپنا پہلا ٹیسٹ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا۔ انہوں نے 88 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 27.04 رنز کی اوسط سے 2759 رنز بنائے۔ انہوں نے دو ٹیسٹ سنچریاں اور 12 نصف سنچریاں بنائیں۔ وہ لوئر آرڈر بیٹسمین تھے اور انہوں نے کئی بار بھارت کو مشکل صورت حال سے نکالا۔ جس وقت سید کرمانی بھارت کے وکٹ کیپر تھے اس وقت وسیم باری پاکستان کے وکٹ کیپر تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وسیم باری پاکستان کے بہترین وکٹ کیپر تھے۔ 1978-79ء میں جب بھارتی ٹیم ایک طویل عرصے بعد پاکستان کے دورے پر آئی تو اس ٹیم کے وکٹ کیپر بھی سید کرمانی تھے۔ وسیم باری سے ان کی اچھی دوستی تھی۔ انہوں نے 49 ایک روزہ میچ بھی کھیلے جن میں انہوں نے 373 رنز بنائے اور ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 48 رنز تھا۔ سید کرمانی نے دس سال تک بھارتی ٹیم کے لئے کھیلا۔ وہ ایک عمدہ وکٹ کیپر تھے۔ انہوں نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ آسٹریلیا کے خلاف 1986ء میں سڈنی میں کھیلا۔

محمد کیف
محمد کیف کو اس وقت شہرت ملی جب وہ بھارت کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اور انہوں نے 2000ء میں u-19 ورلڈ کپ جیتا۔ انہوں نے بہت کم انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی۔ یوں کہنا چاہیے کہ ان کا کرکٹ کیریئر وقت سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ انہوں نے صرف 13 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 32.8 رنز کی اوسط سے 624 رنز بنائے۔ ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 148 رنز ناٹ آؤٹ تھا۔ 125 ایک روزہ میچوں میں انہوں نے 32.0 رنز کی اوسط سے 2753 رنز بنائے اور ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 111 رنز ناٹ آؤٹ تھا۔ یکم دسمبر 1980ء کو اترپردیش میں پیدا ہونے والے محمد کیف کرکٹرز کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد محمد تعریف اتر پردیش کرکٹ ٹیم اور ریلوے کی طرف سے کھیلتے تھے۔

محمد کیف نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ جنوبی افریقا کے خلاف 2 مارچ 2000ء کو کھیلا۔ ان کا پہلا ایک روزہ میچ انگلینڈ کے خلاف تھا جو انہوں نے 28 جنوری 2002ء کو گرین پارک میں کھیلا۔ محمد کیف کو 2002ء میں سینٹ ویسٹ سیریز کے فائنل میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر خاصی شہرت ملی۔ انہوں نے 87 گیندوں پر 75 رنز بنائے۔ بھارت نے یہ فائنل انگلینڈ کے خلاف کھیلا۔ اس میں محمد کیف نے یووراج سنگھ کے ساتھ مل کر 121 رنز بنائے اور بھارت کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ محمد کیف کی شہرت کی اصل وجہ ان کا بہترین فیلڈر ہونا تھا۔ ان جیسا فیلڈر کم ہی پیدا ہوتا ہے۔

عرفان پٹھان
عرفان پٹھان کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی مزید کچھ سال کھیل سکتے تھے۔ وہ نئی گیند سے بہت اچھی باؤلنگ کراتے تھے اور ان کی ان سوئنگ کو ہر بلے باز بڑی احتیاط سے کھیلتا تھا۔ وہ بلے بازی بھی کر لیتے تھے۔ ان کے بھائی یوسف پٹھان بھی کرکٹر تھے لیکن وہ اتنا نام نہیں کما سکے۔ 27 اکتوبر 1984ء کو پیدا ہونے والے عرفان پٹھان نے اپنا پہلا ٹیسٹ 12 دسمبر 2003ء کو آسٹریلیا کے خلاف کھیلا جبکہ پہلا ایک روزہ میچ بھی انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف 2004ء میں کھیلا۔ عرفان پٹھان نے 29 ٹیسٹ میچوں میں 1105 رنز بنائے اور ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 102 رنز تھا۔

انہوں نے 120 ایک روزہ میچوں میں 1544 رنز بنائے اور ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 83 رنز تھا۔ عرفان پٹھان نے 24 ٹی 20 میچ بھی کھیلے اور اس میدان میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ انہوں نے 24.6 رنز کی اوسط سے 172 رنز بنائے۔ عرفان پٹھان نے 29 ٹیسٹ میچوں میں 32.26 رنز کی اوسط سے 100 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے سات بار اننگز میں 5 وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ دو بار ایک میچ میں دس وکٹیں حاصل کیں۔

محمد شامی
محمد شامی اس وقت واحد مسلم کرکٹر ہیں جو اس وقت بھارتی کرکٹ ٹیم میں شامل ہیں۔ وہ ایک بہت عمدہ فاسٹ باؤلر ہیں جو 145 کلومیٹر کی رفتار سے باؤلنگ کراتے ہیں 3 ستمبر 1990ء کو امروہہ میں پیدا ہونے والے محمد شامی نے پہلا ٹیسٹ 21 نومبر 2013ء کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا جبکہ ان کا پہلا ایک روزہ میچ پاکستان کے خلاف تھا جو انہوں نے 6 جنوری 2013ء کو کھیلا۔ ان کا پہلا ٹی 20 میچ بھی پاکستان کے خلاف تھا۔ انہوں نے اب تک 40 ٹیسٹ میچوں میں 29.5 رنز کی اوسط سے 144 وکٹیں اپنے نام کی ہیں۔ حال ہی میں انگلینڈ میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں انہوں نے ایک میچ میں ہیٹ ٹرک کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ محمد شامی آئی پی ایل بھی بڑی باقاعدگی سے کھیلتے ہیں اور اس لیگ نے ان کی صلاحیتوں کو بہت نکھارا ہے۔ محمد شامی کا کیریئر اس وقت عروج پر ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ وہ آئندہ کافی عرصے تک بھارت کی قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہیںگے۔

مذکورہ بالا مسلمان کرکٹرز کے علاوہ کئی اور مسلمان کھلاڑیوں نے بھارت کی طرف سے کرکٹ کھیلی لیکن وہ خاصی پرانی بات ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اتنی زیادہ کرکٹ نہیں کھیلی۔ ان کھلاڑیوں میں غلام احمد، احسان الحق، مبارک علی، اصغر علی، امیر الٰہی،محمد نثار اور کئی دوسرے شامل ہیں۔

عبدالحفیظ ظفر

کوہلی کو دوبارہ ناچنے کا موقع نہ مل سکا

یہ ورلڈ کپ تھا ہی انڈیا کا۔ جس ٹیم میں ون ڈے کا نمبر ون بولر ہو، بہترین لیگ سپنر ہو، بہترین لیفٹ آرم سپنر ہو، دھونی جیسا مڈل آرڈر بلے باز ہو اور پھر وراٹ کوہلی کپتان ہو، روہت شرما اوپنر ہو کہ سنچریاں کرنا جس کی فطرتِ ثانیہ ہو۔ جب یہ ٹورنامنٹ شروع ہوا تھا، تبھی سے پیشگوئیاں ہو رہی تھیں کہ انڈیا اور انگلینڈ فائنل کھیلیں گے۔ گو آسٹریلیا بھی نہایت مضبوط ٹیم ہے، جنوبی افریقہ سے بھی کئی امیدیں جڑی تھیں۔ نہیں تھی تو بس نیوزی لینڈ کسی شمار قطار میں نہیں تھی۔ فائنل کھیلنا تو دور کی بات، کوئی یہ بھی نہیں کہہ رہا تھا کہ نیوزی لینڈ سیمی فائنل تک پہنچ پائے گی۔ اوپنرز کی فارم خراب تھی۔ اکیلے ولیمسن اس بیٹنگ لائن کو دھکا لگا رہے تھے اور واضح سی بات ہے کہ ایک اکیلا کھلاڑی بھلے کتنی ہی اچھی فارم میں ہو، تن تنہا اتنے بڑے ٹورنامنٹ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔

اگر پاکستان ویسٹ انڈیز کے خلاف اس قدر برے طریقے سے نہ ہارتا تو شاید ولیمسن کی ٹیم ایک ہفتہ پہلے ہی نیوزی لینڈ واپس پہنچ چکی ہوتی۔ لیکن تمام توقعات کو شکست دے کر، سبھی خدشات کو درست ثابت کرتے یہ ٹیم فائنل فور میں پہنچی۔ لیکن فائنل فور میں بھی ولیمسن کی ٹیم سب سے ہلکی ٹیم تھی۔ اس قدر ہلکی کہ باقی تینوں سیمی فائنلسٹس کی خواہش تھی کہ ان کا سیمی فائنل کیویز کے خلاف ہو، محض اس مفروضے کی بنیاد پہ کہ یہ آسان حریف ثابت ہو گی اور مخالف سیدھا فائنل میں پہنچ جائے گا۔ ولیمسن کے سامنے صورتِ حال واضح تھی کہ اوپنرز کی مخدوش فارم کے سبب سارے میچ کا دارومدار انہی پہ ہو گا۔ اگر کوئی قابلِ قدر ٹوٹل ترتیب دے لیا تو ان کا پیس اٹیک انڈین بیٹنگ کے بخیے ادھیڑ لے گا۔ نہ بھی سہی کوئی اپنی سی کوشش تو کرے گا۔

وراٹ کوہلی کے سامنے صورتحال اس قدر شفاف تھی کہ انہیں ٹیم سلیکشن سے لے کر گیم پلاننگ تک کہیں کسی تردد کا شکار نہیں ہونا پڑا۔ بھلے ولیمسن نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کر لی مگر کوہلی مطمئن تھے کہ اس شکستہ حال بیٹنگ لائن کے سامنے ان کا بولنگ اٹیک کافی ثابت ہو گا۔ پہلے پاور پلے میں انڈین بولنگ اس قدر مؤثر تھی کہ کیویز کے قدم ڈگمگاتے نظر آئے اور لڑکھڑاتی اننگز پہ کوہلی اس قدر مسرور تھے کہ اوورز کے درمیان کہیں ہلکا پھلکا ناچتے بھی دکھائی دیے۔ کوہلی بجا تھے، وہ ناچ بھی سکتے تھے کیونکہ اتنے بڑے پریشر میچ میں مخالف ٹیم پہلے دس اوورز میں ہی یوں ‘بیک فٹ’ پہ جا چکی تھی۔ اور اگر کل بارش نہ ہوتی تو انڈیا کے لیے یہ میچ سیدھا سیدھا سا رہتا۔

مگر مانچسٹر کے بادل کچھ اور ہی سوچ رہے تھے۔ جہاں تین گھنٹے بعد کوہلی کی ٹیم فتح کا جشن منانے کا سوچ رہی تھی، وہاں جیت بارش کی ہوئی اور یوں تاریخ میں پہلی بار ون ڈے انٹرنیشنل دو روزہ میچ بن گیا۔ رات بھر کی بارش، ابر آلود صبح اور سست وکٹ نے حالات فاسٹ بولنگ کے لیے سازگار کر ڈالے۔ کوہلی کی ٹیم کو یہ تبھی بھانپ لینا چاہیے تھا جب صبح سویرے تین اوورز میں ہی کیویز کی تین وکٹیں گر گئیں۔ روہت شرما کو محتاط ہو جانا چاہیے تھا، کے ایل راہول اور وراٹ کوہلی کو بھی وکٹ کی طبیعت کے مطابق اپنی شاٹس میں بدلاؤ لانا چاہیے تھا۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ کیوی اننگز کے آخری چار اوورز میں کوہلی کیویز کو چِڑانے میں پیش پیش رہے، بھد اڑانے کی بھرپور کوشش کی اور ٹیل اینڈرز تک کا مذاق اڑانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

بھلے وکٹ گیلی تھی اور کیوی پیسرز بھی بھرپور ردھم میں تھے لیکن اس قدر طویل اور اِن فارم بیٹنگ لائن کے لیے یہ ہدف کچھ بھی نہیں تھا۔ صرف وکٹ پہ رُکنے کی ضرورت تھی۔ مگر کوہلی کا دھیان شاید وکٹ کو سمجھنے سے زیادہ ناچنے پہ تھا۔ جبھی اس قدر سنسنی خیز میچ کے بعد، ہدف کے عین قریب آ کر بھی کوہلی کو دوبارہ ناچنے کا موقع نہ مل سکا۔ کیونکہ جو کام میچ ختم ہونے کے بعد کرنا تھا، وہ کافی پہلے میچ کے دوران ہی کثرت سے کر چکے تھے۔

سمیع چوہدری
بشکریہ بی بی سی اردو

ویرات کوہلی دنیا کے سب سے بدتمیز کھلاڑی ہیں

بالی ووڈ کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے اںڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دنیا کے سب سے بدتمیز کھلاڑی ہیں۔ انڈین میڈیا کے مطابق نصیر الدین شاہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر کپتان ویرات کوہلی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ”ویرات کوہلی نا صرف دنیا کے سب سے بہترین بلے باز ہیں بلکہ سب سے بدتمیز کھلاڑی بھی ہیں۔ کرکٹ کی ان کی قابلیت ان کے غرور اور برے رویہ کے سامنے پھیکی پڑ جاتی ہے اور میرا ملک چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اداکار نصیر الدین شاہ نے اپنی پوسٹ کے ذریعہ ویرات کوہلی کے اس بیان پر ردعمل دیا جس میں انہوں نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو پسند کرنے والے مداحوں کو ملک چھوڑ کر چلے جانے کیلئے کہا تھا۔ کوہلی نے ایک پروموشنل پروگرام کے دوران ایک مداح کے تبصرے پر یہ بیان دیا تھا۔ اس پوسٹ نے سوشل میڈیا صارفین کی کافی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے، کچھ لوگوں نے اس پوسٹ کی حمایت جبکہ کچھ نے اس پر اعتراض کیا ہے۔ کچھ صارفین یوزرس نے ویرات کوہلی کو بدتمیز کہنے پر نصیر الدین شاہ کو آرے ہاتھوں لیا جبکہ کچھ نے کوہلی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا کو شکست سینے کیلئے اس طرح کے جارحانہ رویہ کی ضرورت ہے۔ ان میں سے متعدد صارفین ایسے بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ کوہلی کئی مرتبہ حد پار کر چکے ہیں۔

بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویراٹ کوہلی سوشل میڈیا پر ٹرول ہو گئے

بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویراٹ کوہلی کا تنازعات سے پرانا رشتہ ہے۔ فیلڈ کے باہر ان کے اقوال و افعال سرخیاں بٹورتے ہیں۔ تاہم اس بار انھیں ایک تبصرے کے وجہ سے سوشل میڈیا پر بری طرح ٹرول کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں انھوں نے اپنے ایک پرستار کو، اس بات پر کہ وہ ان کی بلے بازی کے بجائے آسٹریلین اور برطانوی بلے بازوں کی بیٹنگ دیکھنا پسند کرتا ہے، بھارت چھوڑنے کا مشورہ دے دیا۔ در اصل کوہلی نے اپنے 30 ویں یوم پیدائش پر 5 نومبر کو اپنی موبائل ایپ لانچ کی۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر آنے والے پیغامات کا جواب دیتے ہوئے ایک ویڈیو جاری کیا۔ اس میں ویراٹ کوہلی کے لیے ایک ٹوئٹ آیا جس میں ایک فین نے انہیں اوور ریٹیڈ بلے باز بتایا اور کہا کہ آپ وہ بلے باز ہیں جس میں مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مجھے انگلینڈ اور آسٹریلیا کے بلے باز اچھے لگتے ہیں۔

اس پر ویراٹ کوہلی کو غصہ آگیا۔ انھوں نے کہا کہ اچھی بات ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسے میں آپ کو بھارت میں نہیں رہنا چاہیے۔ آپ کو کسی اور ملک چلے جانا چاہیے۔ اگر آپ دوسروں سے محبت کرتے ہیں تو بھارت میں کیوں رہتے ہیں۔ آپ مجھے پسند نہ کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن آپ اپنے ملک میں رہتے ہوئے کسی اور کو پسند کرتے ہیں تو آپ کو یہاں نہیں رہنا چاہیے۔ آپ کو اپنی ترجیحات طے کرنی ہوں گی۔ کوہلی کے اس جواب پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ ملک کے موجودہ ماحول میں ان کے تبصرے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔

ایک ٹوئیٹر یوزر نے ایک کلپ بھیجی جس میں وہ یہ کہتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں کہ میرا پسندیدہ بلے باز ہرشل گبس ہے۔ اس وقت گبس جنوبی افریقہ کے جارحانہ اوپننگ بلے باز تھے۔ مذکورہ صارف نے کہا کہ آپ کی دلیل کی بنیاد پر آپ کو جنوبی افریقہ جا کر بس جانا چاہیے۔ 2016 کی ایک خبر کے مطابق ویراٹ کوہلی نے انگلینڈ کرکٹ بورڈ سے کہا تھا کہ نیوزی لینڈ کے کین ولیمسن اور آسٹریلیا کے ڈیوڈ وارنر کے علاوہ انگلینڈ ٹیم کے جو روٹ ان کے پسندیدہ کھلاڑی ہیں۔ وہ پاکستان کے محمد عامر کو بھی اپنا پسندیدہ بتا چکے ہیں۔

ایک شخص نے ٹوئیٹر پر ویراٹ کوہلی کے اشتہاروں کی تفصیل پیش کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ خود غیر ملکی اشتہار کرتے ہیں۔ ایسے میں انھیں کسی کو مشورہ دینے کا حق نہیں ہے۔ کوہلی کے پرستاروں نے ان کی شادی کے بارے میں بھی ان کو ٹرول کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ خود کو اتنے ہی ہندوستانی مانتے ہیں تو اٹلی میں جا کر شادی کیوں کی۔ ان کے پرستار ان کے سابقہ بیانوں کو انھیں یاد دلا کر بھی ان کو ٹرول کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک انٹرویو میں پاکستان کے محمد عامر کی تعریف کی تھی۔

ان کے پرستاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں کسے نہیں۔ آپ بھارت میں رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کسی غیر ملکی کھلاڑی کو پسند نہیں کر سکتے۔ معروف کرکٹ کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے بھی اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوہلی کا بیان بلبلے کا عکس ہے۔ زیادہ مشہور افراد یا تو پھسل جاتے ہیں یا ایسے بیانات دینے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ معروف افراد تضادات کے شکار ہو جاتے ہیں۔ طاقت اور شہرت ان لوگوں کو متوجہ کرتی ہے جو آپ سے متفق ہیں۔

سہیل انجم

بشکریہ وائس آف امریکہ

بھارتی پرچم و تماشائی کے ساتھ تصویر پر آفریدی کی وضاحت

عالمی شہرت یافتہ پاکستانی آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے بھارتی تماشائی کی ان کے جھنڈے کے ساتھ لی گئی تصویر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرکٹرز امن کے سفیر ہوتے ہیں اور بھارتی جھنڈے کے ساتھ تصویر کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس بھارتی تماشائی کی اچھی تصویر آ سکے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے سوئٹزرلینڈ میں برف پر کھیلے گئی نمائشی میچ کی سیریز کے دوران شاہد آفریدی کی بھارتی پرچم کے ہمراہ تماشائی کے ساتھ لی گئی تصویر کو بھارت بھر میں بہت سراہا گیا تھا۔

شاہد آفریدی نے بھارتی پرچم کے ہمراہ تماشائی کے ساتھ لی گئی تصویر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دوسری قوموں کے پرچم کا بھی احترام کرنا چاہیے، یہی وجہ تھی کہ میں بھارتی تماشائی سے پرچم کو صحیح طریقے سے پکڑنے کا کہا اور میں یہ بھی چاہتا تھا کہ اس کی تصویر اچھی آئے۔ انہوں نے یہ بات نوجوانوں کو بااختیار بنانے کیلئے مائیکروسافٹ پاکستان کے ساتھ مفاہمتی یادداشت کے دستخط کی تقریب کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ تعلقات کے سوال پر شاہد آفریدی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے کرکٹرز تعلقات میں بہتری کیلئے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ ہم امن کے سفیر ہیں اور دنیا بھر میں محبت اور امن پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہم سب آپس میں اچھے دوست ہیں اور آئس کرکٹ میں ہمارا بہت اچھا وقت گزرا۔ قومی ٹیم کی دورہ نیوزی لینڈ میں کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق کپتان نے کہا کہ دورے کیلئے تیاری نہ کرنے کو ٹیم کی ون ڈے کرکٹ میں ناکامی کی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دورہ نیوزی لینڈ کیلئے ہم نے محض ایک دن کیمپ میں ٹریننگ کی، آخر ہم نیوزی لینڈ جا رہے تھے یا دبئی؟۔ جب بھی ہم مشکل دوروں پر جاتے ہیں تو ہمیں زیادہ سے زیادہ پریکٹس کرنی چاہیے کیونکہ میچز جیتنے کیلئے پریکٹس، فٹنس اور صلاحیت ہی معنی رکھتی ہے۔

شعیب اختر کی ٹوئٹ پر یووراج سنگھ کا دلچسپ تبصرہ

راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے شہرت پانے والے قومی ٹیم کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر کی ٹوئٹ پر بھارتی کرکٹر یووراج سنگھ نے ان کے حلیہ پر دلچسپ تبصرہ کیا۔ پاکستان اور بھارت کرکٹ سمیت ہر میدان میں ایک دوسرے کے حریف سمجھے جاتے ہیں اور دوران کھیل دونوں اطراف کے کھلاڑی قومی جذبے کے ساتھ کھیلنے میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ اکثر ان کے درمیان تلخ کلامی اور ہاتھا پائی بھی ہوئی لیکن ان ہی کھلاڑیوں میں گراؤنڈ کے باہر بہت اچھی دوستی بھی پائی جاتی ہے جس کی کئی مثالیں ہم دیکھ چکے ہیں۔

حال ہی میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے چیمپئنز ٹرافی کے پاک بھارت فائنل کے دوران ایک لمحے کو کرکٹ کا بہترین لمحہ قرار دیا، اس لمحے میں بھارتی کپتان ویرات کوہلی اور یووراج سنگھ کے ہمراہ پاکستانی کھلاڑی شعیب ملک اور کوچ اظہر محمود کو خوشگوار موڈ میں دیکھا گیا۔ گزشتہ ماہ بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے نہ صرف شعیب اختر کو دنیا کا خطرناک ترین بولر قرار دیا بلکہ پاکستانی بولنگ اٹیک کی تعریف کرتے ہوئے محمد عامر کو رواں صدی کا بہترین بولر قرار دیا۔ اس کے علاوہ ہربھجن سنگھ اور یووراج سنگھ سمیت متعدد بھارتی کرکٹر خود کو شاہد آفریدی کا مداح کہتے ہیں بلکہ ان کو اچھے الفاظوں میں یاد بھی کرتے رہتے ہیں۔

راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر نے ایک ٹوئٹ کی جس میں انہوں نے کہا کہ ’صرف سخت محنت سے ہی خوابوں کا حصول ممکن ہو سکتا ہے‘۔ جب کہ پوسٹ میں انہوں نے اپنی ایک تصویر بھی شیئر کی جس میں وہ ہاتھوں میں دستانے پہنے ہوئے اور ہاتھ میں ہیلمٹ پکڑے کھڑے ہیں۔ شعیب اختر کی اس ٹوئٹ پر بھارتی کرکٹر یووراج سنگھ نے پنجابی زبان میں زبردست جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ وہ تو ٹھیک ہے بھائی جان آپ ویلڈنگ کرنے کہاں جا رہے ہیں’۔ مداحوں کی جانب سے یووراج سنگھ کے اس جواب کو خوب سراہا گیا اور اسے متعدد بار ری ٹوئٹ بھی کیا گیا۔

امپائر کے ساتھ نامناسب رویے پر ویرات کوہلی کو جرمانہ

امپائر کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کرنے پر ویرات کوہلی کو جرمانہ عائد کر دیا گیا، بھارتی کپتان نے آﺅٹ فیلڈ گیلا ہونے کی شنوائی نہ ہونے پر گیند کو گراﺅنڈ پر پٹخا تھا۔ بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہونے والے سنچورین ٹیسٹ کے تیسرے روز میزبان ٹیم کی دوسری اننگز کے دوران بارش کی وجہ سے میچ روکنا پڑا، کچھ دیر بعد امپائرز نے کھیل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو بھارتی کپتان نے آﺅٹ فیلڈ گیلا ہونے کی وجہ سے بار بار امپائر مائیکل گف سے شکایت کی اور شنوائی نہ ہونے پر گیند کو غصے میں زمین پر دے مارا۔ بعد ازاں خراب روشنی کے باعث کھیل روکنے پر بھی کوہلی برہمی کا اظہار کیا۔ آئی سی سی نے انہیں لیول ون کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 25 فیصد میچ فیس کا جرمانہ عائد کیا ہے جبکہ کوہلی کے کھاتے میں ایک منفی پوائنٹ بھی شامل کیا گیا ہے۔ بھارتی کپتان نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے سزا قبول کر لی ہے۔