کوہلی کو دوبارہ ناچنے کا موقع نہ مل سکا

یہ ورلڈ کپ تھا ہی انڈیا کا۔ جس ٹیم میں ون ڈے کا نمبر ون بولر ہو، بہترین لیگ سپنر ہو، بہترین لیفٹ آرم سپنر ہو، دھونی جیسا مڈل آرڈر بلے باز ہو اور پھر وراٹ کوہلی کپتان ہو، روہت شرما اوپنر ہو کہ سنچریاں کرنا جس کی فطرتِ ثانیہ ہو۔ جب یہ ٹورنامنٹ شروع ہوا تھا، تبھی سے پیشگوئیاں ہو رہی تھیں کہ انڈیا اور انگلینڈ فائنل کھیلیں گے۔ گو آسٹریلیا بھی نہایت مضبوط ٹیم ہے، جنوبی افریقہ سے بھی کئی امیدیں جڑی تھیں۔ نہیں تھی تو بس نیوزی لینڈ کسی شمار قطار میں نہیں تھی۔ فائنل کھیلنا تو دور کی بات، کوئی یہ بھی نہیں کہہ رہا تھا کہ نیوزی لینڈ سیمی فائنل تک پہنچ پائے گی۔ اوپنرز کی فارم خراب تھی۔ اکیلے ولیمسن اس بیٹنگ لائن کو دھکا لگا رہے تھے اور واضح سی بات ہے کہ ایک اکیلا کھلاڑی بھلے کتنی ہی اچھی فارم میں ہو، تن تنہا اتنے بڑے ٹورنامنٹ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔

اگر پاکستان ویسٹ انڈیز کے خلاف اس قدر برے طریقے سے نہ ہارتا تو شاید ولیمسن کی ٹیم ایک ہفتہ پہلے ہی نیوزی لینڈ واپس پہنچ چکی ہوتی۔ لیکن تمام توقعات کو شکست دے کر، سبھی خدشات کو درست ثابت کرتے یہ ٹیم فائنل فور میں پہنچی۔ لیکن فائنل فور میں بھی ولیمسن کی ٹیم سب سے ہلکی ٹیم تھی۔ اس قدر ہلکی کہ باقی تینوں سیمی فائنلسٹس کی خواہش تھی کہ ان کا سیمی فائنل کیویز کے خلاف ہو، محض اس مفروضے کی بنیاد پہ کہ یہ آسان حریف ثابت ہو گی اور مخالف سیدھا فائنل میں پہنچ جائے گا۔ ولیمسن کے سامنے صورتِ حال واضح تھی کہ اوپنرز کی مخدوش فارم کے سبب سارے میچ کا دارومدار انہی پہ ہو گا۔ اگر کوئی قابلِ قدر ٹوٹل ترتیب دے لیا تو ان کا پیس اٹیک انڈین بیٹنگ کے بخیے ادھیڑ لے گا۔ نہ بھی سہی کوئی اپنی سی کوشش تو کرے گا۔

وراٹ کوہلی کے سامنے صورتحال اس قدر شفاف تھی کہ انہیں ٹیم سلیکشن سے لے کر گیم پلاننگ تک کہیں کسی تردد کا شکار نہیں ہونا پڑا۔ بھلے ولیمسن نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کر لی مگر کوہلی مطمئن تھے کہ اس شکستہ حال بیٹنگ لائن کے سامنے ان کا بولنگ اٹیک کافی ثابت ہو گا۔ پہلے پاور پلے میں انڈین بولنگ اس قدر مؤثر تھی کہ کیویز کے قدم ڈگمگاتے نظر آئے اور لڑکھڑاتی اننگز پہ کوہلی اس قدر مسرور تھے کہ اوورز کے درمیان کہیں ہلکا پھلکا ناچتے بھی دکھائی دیے۔ کوہلی بجا تھے، وہ ناچ بھی سکتے تھے کیونکہ اتنے بڑے پریشر میچ میں مخالف ٹیم پہلے دس اوورز میں ہی یوں ‘بیک فٹ’ پہ جا چکی تھی۔ اور اگر کل بارش نہ ہوتی تو انڈیا کے لیے یہ میچ سیدھا سیدھا سا رہتا۔

مگر مانچسٹر کے بادل کچھ اور ہی سوچ رہے تھے۔ جہاں تین گھنٹے بعد کوہلی کی ٹیم فتح کا جشن منانے کا سوچ رہی تھی، وہاں جیت بارش کی ہوئی اور یوں تاریخ میں پہلی بار ون ڈے انٹرنیشنل دو روزہ میچ بن گیا۔ رات بھر کی بارش، ابر آلود صبح اور سست وکٹ نے حالات فاسٹ بولنگ کے لیے سازگار کر ڈالے۔ کوہلی کی ٹیم کو یہ تبھی بھانپ لینا چاہیے تھا جب صبح سویرے تین اوورز میں ہی کیویز کی تین وکٹیں گر گئیں۔ روہت شرما کو محتاط ہو جانا چاہیے تھا، کے ایل راہول اور وراٹ کوہلی کو بھی وکٹ کی طبیعت کے مطابق اپنی شاٹس میں بدلاؤ لانا چاہیے تھا۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ کیوی اننگز کے آخری چار اوورز میں کوہلی کیویز کو چِڑانے میں پیش پیش رہے، بھد اڑانے کی بھرپور کوشش کی اور ٹیل اینڈرز تک کا مذاق اڑانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

بھلے وکٹ گیلی تھی اور کیوی پیسرز بھی بھرپور ردھم میں تھے لیکن اس قدر طویل اور اِن فارم بیٹنگ لائن کے لیے یہ ہدف کچھ بھی نہیں تھا۔ صرف وکٹ پہ رُکنے کی ضرورت تھی۔ مگر کوہلی کا دھیان شاید وکٹ کو سمجھنے سے زیادہ ناچنے پہ تھا۔ جبھی اس قدر سنسنی خیز میچ کے بعد، ہدف کے عین قریب آ کر بھی کوہلی کو دوبارہ ناچنے کا موقع نہ مل سکا۔ کیونکہ جو کام میچ ختم ہونے کے بعد کرنا تھا، وہ کافی پہلے میچ کے دوران ہی کثرت سے کر چکے تھے۔

سمیع چوہدری
بشکریہ بی بی سی اردو