ہم پاکستان کے خلاف محض ایک میچ نہیں بلکہ بہت کچھ ہارے ہیں

غالباً جون کے دنوں کی بات ہے۔ میں اور میری اہلیہ کلکتہ میں بڑے اپارٹمنٹ کی تلاش میں تھے اور اس تلاش میں ہم شہر کے مضافات میں ایک نامور بلڈر کی زیرِ نگرانی بننے والے رہائشی منصوبے کا جائزہ لینے پہنچے۔ نفیس پہناوے میں ملبوس مارکیٹنگ منیجر صاحب نے ہمیں منصوبے کی خصوصیات گنوانے اور سائٹ کا دورہ کروانے کے بعد اپنے پُرتعیش دفتر میں کافی پینے کی پیش کش کی اور ہمیں اطمینان دلاتے ہوئے گویا ہوئے کہ، ‘ہم صرف مہذب اور پڑھے لکھے افراد کو اپنا گاہک بنا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو تو بالکل بھی نہیں’۔ میں نے یہ بات سن کر آدھے سیکنڈ میں ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ میرا یہاں اب کوئی کام نہیں۔ جب میں اور میری اہلیہ نظروں کے تبادلے کے بعد منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر دفتر سے اٹھ کر جانے لگے تو میں نے یہ نوٹ کیا کہ منیجر سے بات کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنے والی ایک اور فیملی بھی صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دیوتا گنیش کی چراغوں سے سجی مورتی کے پاس سے گزرتے ہوئے ہم سے پہلے ہی دفتر سے باہر نکل گئی۔

باہر جب میں گاڑی کا دروازہ کھول رہا تھا اس وقت وہ لوگ بھی اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ میں نے ان کی گاڑی میں ایک عمر رسیدہ باحجاب خاتون کو بھی دیکھا جو ضرور وہاں موجود آدمی یا عورت میں سے کسی ایک کی والدہ ہوں گی۔ یہ نہ تو آج کا اتر پردیش ہے اور نہ گودھڑا واقعے کے بعد کا گجرات تھا۔ یہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت بھی قائم نہیں۔ یہ تو وہ ریاست ہے جہاں حکومت کو ‘اقلیت کو خوش کرنے’ کا ‘مجرم’ ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ 2021ء کے اس وقت کے کلکتہ کا تذکرہ ہو رہا ہے جب ریاستی انتخابات میں تری نامول کانگریس کی شاندار کامیابی کو مشکل سے ایک ماہ کا عرصہ بھی نہیں ہوا تھا۔ اس خاندان کے سامنے میرا سر شرم سے جھک گیا۔ میں ان کے سامنے خود کو شرمسار محسوس کرنے لگا تھا لیکن حسبِ معمول میں نے آرام دہ ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں سوار ہونے کے بعد کھڑکیوں کے شیشے چڑھائے اور آگے بڑھ گیا۔ میں نے اس روز شام کے پہر خود سے پوچھا کہ نئے گھر کے متلاشی اس نوجوان جوڑے سے میں کس کی طرف سے معافی مانگوں؟ شاید مجھے اس مارکیٹنگ والے بندے کی طرف سے مانگنی چاہیے جو ممکنہ طور پر اپنے باس کی ہدایات پر عمل کر رہا تھا۔

مگر کیا مجھے ہماری خودمختار سوشلسٹ سیکولر جمہوری مملکت کے وزیرِاعظم کی جانب سے بھی معافی نہیں مانگنی چاہیے جنہوں نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کی شناخت ان کے کپڑوں سے ہی کی جاسکتی ہے؟ کیا مجھے اس ملک کے ہر باسی کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جنہوں نے گزشتہ برس مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور پھر جب 2021ء میں کمبھ میلہ وائرس کے شدید پھیلاؤ کا باعث بنا تب ان کی سوچ کا زاویہ ہی بدل گیا؟ کیا مجھے یونین وزیرِ داخلہ کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جنہوں نے بنگلادیشی مہاجرین کو ‘دیمک’ پکارا تھا؟ کیا مجھے اپنے ان ‘دوستوں’ کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جو روزانہ واٹس ایپ گروپس میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں؟ کیا مجھے اس پورے نظام کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جو مسلمانوں کو برملا انداز میں بُرا بھلا کہنے اور ان کی نسل کشی کا مطالبہ کرنے والے کٹر دائیں بازو والوں کو اس ملک میں آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے کی اجازت دیتا ہے؟

اونچی ذات کا ہندو ہونے کے ناطے 2021ء کے اس بھارت میں اس مسلمان خاندان سے مجھے کتنی باتوں کی معافیاں طلب کرنی چاہئیں؟ دراصل جب ٹی20 ورلڈکپ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارتی ٹیم کی بدترین شکست پر مبیّنہ طور پر جشن منانے والے بھارت کے ایک طبقے خصوصاً کشمیری مسلمانوں سے متعلق سوشل میڈیا پر غم و غصہ اور اس موضوع پر چند حلقوں کی جانب سے جاری عوامی مباحثہ دیکھا تو مجھے کلکتے کے اس واقعے کی یاد تازہ ہو گئی۔ پتا چلا ہے کہ کشمیر پولیس نے پاکستان کی فتح کا جشن منانے اور بھارت مخالف نعرے لگانے پر Unlawful Activities Prevention Act (یو اے پی اے) جیسے سیاہ قانون کے تحت چند مقامی طلبہ پر مقدمہ درج کیا ہے جبکہ راجستھان میں ایک اسکول ٹیچر کو پاکستان کی جیت پر خوشی کا اظہار کرنے پر نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی کھیل میں آپ کس ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں، یہ مکمل طور پر آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔

مجھے یاد ہے کہ بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان ایڈن گارڈنز میں کھیلے جانے والے ایک روزہ میچ کے دوران تقریباً ایک لاکھ تماشائیوں نے محض ساروو گانگولی کو بھارتی ٹیم میں شامل نہ کرنے پر جنوبی افریقہ کو سپورٹ کیا تھا۔ جب بھی گریم اسمتھ ظہیر خان کی گیند کو باؤنڈری کے پار بھیجتے تو تماشائیوں میں خوشی کی لہر دوڑ اُٹھتی۔ اس دن بھاری شکست کے بعد میدان سے واپسی پر طیش میں آئے ہوئے گریگ چیپل نے اسٹیڈیم کے باہر کھڑے شائقین کو نازیبا اشارے کر کے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔ کیا ان تماشائیوں کو بھارت مخالف یا قوم دشمن قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہمیں خود سے لازماً یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارتی مسلمان اس ملک میں خود کو تنہا کیوں محسوس کرنے لگے ہیں؟ میں نے اوپر جو واقعہ بیان کیا وہ کلکتہ میں پیش آیا تھا، مگر تصور کیجیے کہ آج فیض آباد یا گورکھ پور میں ایک عام مسلمان کی حالت کیا ہو گی؟

کیا ہم بطور اکثریت کبھی یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک ایسی حکومت کے اقتدار میں بھارتی مسلمانوں کے لیے رہنا کس قدر دہشت انگیز ہو سکتا ہے جس نے بینگلور کے نوجوان رکن پارلیمنٹ جیسے دائیں بازو کے کٹر پسندوں کو لاڈلا رکھا ہوا ہے؟ بھارتی مسلمانوں کے لیے روزمرہ کا استحصال، حملے، تشدد کے ذریعے قتل کر دینے کے واقعات، نفرت انگیز تقاریر اور قتل کی کھلے عام دھمکیاں اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ یوں سمجھیے کہ اس ملک میں ہر روز انہیں خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کروایا جاتا ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ غزالہ جمیل کہتی ہیں کہ ‘ان واقعات کے پیچھے تصور یہی تھا کہ مسلمان ہونے کے ناطے آپ کو کہیں بھی کسی بھی وقت نشانہ بنایا جاسکتا ہے’۔ اور اگر انہیں تنہا کر دینے کے عمل کا نتیجہ  پاکستان کی فتح کے مبیّنہ جشن کی صورت میں برآمد ہوا ہے تو اس کا الزام کس پر عائد ہونا چاہیے؟

یہ جو کھیل ہوتا ہے، یہ رنگ، نسل یا شناخت کے تضادات سے ماورا ہوتا ہے۔ بھارت میں کرکٹ کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں جب فرقہ وارانہ تناؤ اپنے عروج پر تھا اس وقت بھی محمد اظہرالدین پر کوئی کیچڑ نہیں اچھالا کرتا تھا۔ کشمیر سے کنیا کماری تک شائقین کرکٹ مذہبی تفریقات کو ایک طرف رکھ کر اظہرالدین کو کلائی کا شاندار طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اور اسی طرح سچن کی اسٹریٹ ڈرائیو دیکھ کر خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔ اگر تھوڑا اور ماضی میں جائیں تو پائیں گے کہ نواب آف پتوڈی، وہ مسلمان کپتان تھے جن کی قیادت میں بھارت (کی ٹیم) نے غیر ملکی میدانوں پر عزت کمانا شروع کی تھی۔ کیا افغانستان میں پیدا ہونے والے سلیم درانی سے 60ء اور 70ء کی دہائی میں شائقین کی محبت مذہبی شناخت کی محتاج تھی؟ ان کی ٹیم میں سلیکشن نہ ہونے پر بمبئی میں ‘No Durrani, No Test’ کے پلے کارڈز دکھانے والے ناراض شائقین کا مجمع صرف مسلمانوں پر مشتمل تھا؟

کیا کبھی ساروو کی زیرِ کپتانی ٹیم میں شامل خان، پٹھان اور کیف کے نام والے کھلاڑیوں کو پاکستان کے خلاف کھیلتے وقت کبھی کسی قسم کی دشواری کا سامنا کرنا پڑا؟ یہ ساری باتیں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ جو کبھی جڑا تھا وہ کہیں ٹوٹ سا گیا ہے۔ محمد شامی پر ہونے والے زبانی حملے، بی سی سی آئی اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کی خاموشی اور اقلیتی طلبہ کو پاکستان کی جیت کا ‘جشن’ منانے پر سزا دینے کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے پاکستان کے خلاف ایک میچ ہی نہیں ہارا بلکہ ہم بہت کچھ ہار بیٹھے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی قومی شناخت کو بھی کھو بیٹھے ہیں۔

یہ مضمون سب سے پہلے دی وائر اور بعدازاں ڈان، ای او ایس میں 14 نومبر 2021ء کو شائع ہوا۔

اندرادیپ بھٹچاریہ

بشکریہ ڈان نیوز

ڈوپلیسی نے بابر اور کوہلی کو ایک جیسا کھلاڑی قرار دیدیا

پشاور زلمی کی نمائندگی کرنے والے فاف ڈوپلیسی نے پاکستانی کپتان بابر اعظم اور ان کے بھارتی ہم منصب ویرات کوہلی کو ایک جیسا کھلاڑی قرار دیدیا۔ بھارتی ویب سائٹ پر شائع رپورٹ میں کرکٹ پاکستان کے مقامی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ جنوبی افریقی کپتان نے بابر اعظم اور ویرات کوہلی کو ’بہت ہی اعلیٰ معیار کے کھلاڑی‘ کہا۔ اپنے ایک انٹرویر میں فاف ڈوپلیسی کا کہنا تھا کہ یہ دونوں بہت ہی اعلیٰ معیار کے کھلاڑی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک آدھ سال میں بابر اعظم نے اس کھیل کے عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہونے کے لیے ایک اور قدم بڑھا دیا ہے۔ فاف ڈوپلیسی نے کہا کہ ایک روشن مستقبل بابر اعظم کا انتظار کر رہا ہے۔

جنوبی افریقی کپتان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ بابر اعظم نے اپنی ٹی 20 کرکٹ سے لوگوں کو متاثر کیا، لوگ اسے ایک بچے کی طرح دیکھتے تھے جس میں شاید بڑے شاٹ کھیلنے کی پاور نہیں، لیکن اپنے حالیہ ٹی ٹوئنٹی گیمز تو ان کے بہت ہی شاندار رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پی ایس ایل میں فاف ڈوپلیسی نے پشاور زلمی کی جانب سے کھیلتے ہوئے 31 رنز کی اننگز کھیلی، تاہم ان کی ٹیم ایلیمنیٹر-1 میں لاہور قلندرز سے شکست کھا کر پی ایس ایل سے باہر ہو گئی۔ خیال رہے کہ فاف ڈوپلیسی پاکستان سپر لیگ میں ہونے والے مقابلوں کو بھی اعلیٰ اور معیاری قرار دیا تھا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

میانداد بنگلور ٹیسٹ میں بار بار پوچھتے ’’تیرا روم نمبر کیا ہے‘‘، دلیپ دوشی

پاکستان کے سابق لیجینڈ کرکٹر اور سابق کپتان جاوید میاں داد فیلڈ میں ہمیشہ سے ہی اپنے طنز ومزاح کے حوالے سے مشہور رہے ہیں۔ بھارتی اخبار کے مطابق فیلڈ میں کہے جانے والے ان کے الفاظ آف سائیڈ پر ان کے بیک فٹ پنچز جتنے ہی شاندار ہوتے تھے۔ انہی میں سے ان کا ایک مشہور جملہ تھا ’’تیرا روم نمبر کیا ہے‘‘ جو انہوں نے سابق بھارتی لیفٹ آرم اسپنر دلیپ دوشی سے کہے تھے۔ جاوید میاں داد اور دلیپ دوشی کے درمیان اس گفتگو کو کئی پاکستان اور بھارتی سابق کرکٹرز نے مختلف انداز سے پیش کیا جن میں سنیل گواسکر بھی شامل ہیں۔ 1983ء میں بنگلور میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں جاوید میاں داد اور دلیپ دوشی کے درمیان اس واقعے کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے دلیپ دوشی نے بھارتی اخبار سے گفتگو کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میاں داد ایک عظیم کرکٹر تھے، بنگلور ٹیسٹ میں بار بار مجھ سے پوچھتے ’’تیرا روم نمبر کیا ہے‘‘۔

انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر جاوید میاں داد آن فیلڈ میں جارحانہ مزاج رکھتے تھے، وہ ایک عظیم بلے باز تھے، ان کا شمار دنیا کے ان بہترین کرکٹرز میں ہوتا تھا جنہیں میں نے باولنگ کی، میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ وہ میرے اچھے دوست بھی ہیں، میدان سے باہر ہم دونوں اچھے دوستوں کی طرح ہوتے تھے لیکن میدان میں ان کا کردار یکسر مختلف ہوتا تھا۔ سابق اسپنر مرلی کارتھک سے انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ جاوید میاں داد آف اسٹمپ پر کھیلنا پسند کرتے تھے۔ میں اسٹمپس کی جانب باولنگ کرتا تھا۔ میں جاوید میاں داد کو ان کے پسندیدہ شاٹس کھیلنے سے محدود رکھتا تھا اور اگر وہ اپنے پسندیدہ اسٹوکس کھیلتے تو انہیں رسک لینا پڑتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بسا اوقات وہ جھنجھلا جاتے تھے تاہم ان کے پاس مخالف کی توجہ بٹانے کیلئے ایک ہی طریقہ رہ جاتا تھا کہ وہ اسے غصہ دلائیں اور وہ اس کام میں بہت ماہر تھے، وہ کرن مورے کیساتھ ایسا کر چکے تھے، وہ ڈینس لیلی کیساتھ بھی ایسا کرچکے تھے اور میرے ساتھ بھی کئی مرتبہ یہ طریقہ آزمایا۔ دلیپ دوشی نے بتایا کہ وہ قریب کھڑے فیلڈرز کو کچھ کہتے تھے کہ وہ یہ پیغام مجھ تک پہنچائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

بھارت کے نامور مسلمان کرکٹرز جنھوں نے اپنے شاندار کھیل کی بدولت نام کمایا

بھارت میں کئی مسلم کرکٹرز نے اپنے شاندار کھیل کی بدولت نام کمایا اور اپنے معیاری کھیل کی وجہ سے اپنا نام ہمیشہ کیلئے تاریخ کے صفحات میں لکھوا لیا۔
پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں کچھ غیر مسلم کرکٹرز نے بھی خدمات سرانجام دیں۔ ان میں ویلس میتھائس، انیل دلپت، دانش کنیریا اور یوسف یوحنا شامل ہیں۔ یوسف یوحنا نے 2004ء میں اسلام قبول کر لیا اور وہ محمد یوسف ہو گئے۔ ویلس میتھائس کی شہرت ان کی زبردست فیلڈنگ کی وجہ سے تھی لیکن وہ ایک اچھے بلے باز بھی تھے۔ انیل دلپت وکٹ کیپر بلے باز تھے لیکن وہ جلد ہی کرکٹ سے آؤٹ ہو گئے کیونکہ ان کی کارکردگی ناقص تھی۔

اس کے بعد دانش کنیریا آئے اور انہوں نے ایک عمدہ لیگ سپنر کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا۔ ان کی 250 سے زیادہ وکٹیں ہیں اور یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وسیم اکرم اور وقار یونس کے بعد سب سے زیادہ وکٹیں دانش کنیریا ہی کی ہیں۔ یوسف یوحنا ایک بہت اچھے مڈل آرڈر بلے باز تھے۔ انہوں نے اپنے دلکش کھیل سے کئی سالوں تک شائقین کرکٹ کو محظوظ کیا۔ 2004ء میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام محمد یوسف رکھا گیا۔ بھارت میں کئی مسلم کرکٹرز نے اپنے شاندار کھیل کی بدولت نام کمایا۔ ہم ذیل میں بھارت کے ان مشہور مسلمان کرکٹرز کے بارے میں اپنے ناظرین کو بتائیں گے جنہوں نے اپنے معیاری کھیل کی وجہ سے اپنا نام ہمیشہ کیلئے تاریخ کے صفحات میں لکھوا لیا۔

سید مشتاق علی
17 دسمبر 1914ء کو اندور میں پیدا ہونے والے سید مشتاق علی آل راؤنڈر تھے۔ وہ دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرتے تھے اور سلو لیفٹ آرم باؤلر بھی تھے۔ اس زمانے میں بہت کم کرکٹ کھیلی جاتی تھی۔ مشتاق علی نے 11 ٹیسٹ میچ کھیلے اور دو سنچریاں بنائیں۔ انہوں نے 32-21 رنز کی اوسط سے 612 رنز بنائے۔  انہوں نے مجموعی طور پر 226 فرسٹ کلاس میچ کھیلے اور 35.90 رنز کی اوسط سے 13213 رنز بنائے۔ ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 233 رنز تھا۔ انہوں نے 30 سنچریاں اور 63 نصف سنچریاں بنائیں۔ فرسٹ کلاس میچوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 162 تھی لیکن 11 ٹیسٹ میچوں میں صرف تین وکٹیں حاصل کر سکے۔ انہوں نے سب سے پہلا ٹیسٹ میچ 1934ء کو کولکتہ میں کھیلا اور ان کا آخری ٹیسٹ بھی انگلینڈ کے خلاف ہی تھا۔ وہ اپنے دور کے خاصے مشہور کرکٹر تھے۔ 18 جون 2005ء کو 90 برس کی عمر میں سید مشتاق علی کا اندور میں انتقال ہو گیا۔

منصور علی خان پٹودی
منصور علی خان پٹودی بھارت کے کپتان بھی رہے۔ انہیں ٹائیگر پٹودی بھی کہا جاتا تھا۔ منصور پٹودی صرف 21 برس کی عمر میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان بن گئے۔ انہیں بھارت کے عظیم ترین کپتانوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ وہ اپنے دور کے بہترین فیلڈر تھے اور ایسا آسٹریلیا کے مشہور تبصرہ نگار جان آرلٹ اور انگلینڈ کے سابق کپتان ٹیڈڈیکسٹر نے ان کے بارے میں کہا تھا۔ 5 جنوری 1941ء کو بھوپال میں پیدا ہونے والے منصور پٹودی نے 46 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 34.91 رنز کی اوسط سے 2793 رنز بنائے۔ انہوں نے چھ ٹیسٹ سنچریاں اور 17 نصف سنچریاں بنائیں۔ ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 203 رنز ناٹ آؤٹ تھا۔ انہوں نے ایک ٹیسٹ وکٹ بھی حاصل کی۔ وہ کاؤنٹی کرکٹ بھی کھیلتے رہے۔

ایک حادثے میں وہ اپنی ایک آنکھ سے محروم ہو گئے۔ خدشہ تھا کہ شاید اب ان کا کرکٹ کیریئر ختم ہو جائیگا لیکن انہوں نے کرکٹ جاری رکھی۔ مارچ 1962ء میں انہیں بھارتی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا۔ اس وقت بھارتی ٹیم ویسٹ انڈیز کے دورے پر تھی۔ اس وقت ناری کنٹریکٹر بھارتی ٹیم کے کپتان تھے۔ ویسٹ انڈیز کے باؤلر چارلی گرفتھ کی گیند لگنے سے وہ زخمی ہو گئے اور اس پر منصور پٹودی کو کپتان بنا دیا گیا۔ بھارت نے گھر سے باہر جو سیریز جیتی وہ نیوزی لینڈ کے خلاف تھی اور اس سیریز کے کپتان منصور پٹودی تھے۔ منصور پٹودی 25ء اگست 2011ء کو 70 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔

محمد اظہر الدین
محمد اظہر الدین ایک زبردست کرکٹر تھے۔ انہوں نے 47 ٹیسٹ اور 174 ایک روزہ میچوں میں بھارتی ٹیم کی قیادت کی۔ 8 فروری 1963ء کو حیدر آباد میں پیدا ہونے والے اظہر الدین نے 99 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 45.08 کی اوسط سے 6216 رنز بنائے۔ انہوں نے پہلا ٹیسٹ میچ 1984ء میں کولکتہ کے ایڈن گارڈن میں انگلینڈ کے خلاف کھیلا۔ وہ ایک دلکش سٹروک پلیئر تھے جنہوں نے گریگ چیپل، ظہیر عباس اور وشوا ناتھ کی یاد دلا دی۔ جن لوگوں نے ان کا عروج دیکھا ہے وہ ان کے کھیل کو کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ اظہر الدین وہ واحد کرکٹر ہیں جنہوں نے اپنے پہلے تین ٹیسٹ میچوں کی پہلی اننگز میں سنچری بنائی۔

اظہر الدین نے جنوبی افریقا کے خلاف اپنے آخری ٹیسٹ میں بھی سنچری بنائی۔ ٹیسٹ میں ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 199 رنز ناٹ آؤٹ تھا۔ انہوں نے 334 ایک روزہ میچ کھیلے اور 36.92 ٹیسٹ اور 21 نصف سنچریاں بنائیں جبکہ ایک روزہ میچوں میں ان کی سنچریوں کی تعداد سات تھی جبکہ انہوں نے 58 نصف سنچریاں بنائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک باکمال کرکٹر تھے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دور کے بہترین فیلڈر تھے اور انہوں نے 100 سے زیادہ کیچز پکڑے۔

ظہیر خان
ظہیر خان بہت اچھے فاسٹ باؤلر تھے۔ کیپل دیو اور سری ناتھ کے بعد انہوں نے ایک فاسٹ باؤلر کی حیثیت سے شہرت کی۔ وہ بائیں ہاتھ سے باؤلنگ کرتے تھے۔ انہوں نے 92 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 32.95 رنز کی اوسط سے 311 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے ایک اننگز میں 11 مرتبہ پانچ وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی بہترین باؤلنگ 87 رنز کے عوض سات وکٹیں ہیں۔ انہوں نے 200 ایک روزہ میچ کھیلے اور 29.11 رنز کی اوسط سے 282 وکٹیں اپنے نام کیں۔ 7 اکتوبر 1978ء کو دائم آباد ضلع احمد نگر میں پیدا ہونے والے ظہیر خان 1999ء سے 2006ء تک برودہ کی طرف سے کھیلتے رہے۔ انہوں نے کاؤنٹی کرکٹ بھی کھیلتے رہے اور 2004ء سے 2006ء تک سرے اور ورسٹر شائر کی طرف سے کھیلتے رہے۔

رانجی ٹرافی کے 2000-01ء سیزن کے فائنل میں انہوں نے مین آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کیا۔ انہوں نے 145 رنز دے کر آٹھ وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ دوسری اننگز میں انہوں نے 16 رنز دے کر آٹھ وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی باؤلنگ کی بڑی خوبی ریورس سوئنگ تھی۔ اس کے علاوہ ان کی لائن اور لینتھ بھی بڑی درست ہوتی تھی۔ ظہیر خان ضرورت پڑنے پر اچھی خاصی بلے بازی بھی کر لیتے تھے۔ 2017ء میں ظہیر خان کو بھارتی کرکٹ ٹیم کا باؤلنگ کنسلٹنٹ مقرر کر دیا گیا۔ ظہیر خان کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ وہ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے بلے بازوں کو بڑی مہارت سے آؤٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنا آخری ٹیسٹ 14 فروری 2014ء کو نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا۔

سید کرمانی
سید مجتبیٰ حسین کرمانی وکٹ کیپر بلے باز تھے اور انہوں نے بھی بھارتی ٹیم کے لئے شاندار خدمات سرانجام دیں۔ 29 دسمبر 1949ء کو پیدا ہونے والے سید کرمانی نے 24 جنوری 1976ء کو اپنا پہلا ٹیسٹ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا۔ انہوں نے 88 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 27.04 رنز کی اوسط سے 2759 رنز بنائے۔ انہوں نے دو ٹیسٹ سنچریاں اور 12 نصف سنچریاں بنائیں۔ وہ لوئر آرڈر بیٹسمین تھے اور انہوں نے کئی بار بھارت کو مشکل صورت حال سے نکالا۔ جس وقت سید کرمانی بھارت کے وکٹ کیپر تھے اس وقت وسیم باری پاکستان کے وکٹ کیپر تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وسیم باری پاکستان کے بہترین وکٹ کیپر تھے۔ 1978-79ء میں جب بھارتی ٹیم ایک طویل عرصے بعد پاکستان کے دورے پر آئی تو اس ٹیم کے وکٹ کیپر بھی سید کرمانی تھے۔ وسیم باری سے ان کی اچھی دوستی تھی۔ انہوں نے 49 ایک روزہ میچ بھی کھیلے جن میں انہوں نے 373 رنز بنائے اور ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 48 رنز تھا۔ سید کرمانی نے دس سال تک بھارتی ٹیم کے لئے کھیلا۔ وہ ایک عمدہ وکٹ کیپر تھے۔ انہوں نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ آسٹریلیا کے خلاف 1986ء میں سڈنی میں کھیلا۔

محمد کیف
محمد کیف کو اس وقت شہرت ملی جب وہ بھارت کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اور انہوں نے 2000ء میں u-19 ورلڈ کپ جیتا۔ انہوں نے بہت کم انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی۔ یوں کہنا چاہیے کہ ان کا کرکٹ کیریئر وقت سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ انہوں نے صرف 13 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 32.8 رنز کی اوسط سے 624 رنز بنائے۔ ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 148 رنز ناٹ آؤٹ تھا۔ 125 ایک روزہ میچوں میں انہوں نے 32.0 رنز کی اوسط سے 2753 رنز بنائے اور ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 111 رنز ناٹ آؤٹ تھا۔ یکم دسمبر 1980ء کو اترپردیش میں پیدا ہونے والے محمد کیف کرکٹرز کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد محمد تعریف اتر پردیش کرکٹ ٹیم اور ریلوے کی طرف سے کھیلتے تھے۔

محمد کیف نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ جنوبی افریقا کے خلاف 2 مارچ 2000ء کو کھیلا۔ ان کا پہلا ایک روزہ میچ انگلینڈ کے خلاف تھا جو انہوں نے 28 جنوری 2002ء کو گرین پارک میں کھیلا۔ محمد کیف کو 2002ء میں سینٹ ویسٹ سیریز کے فائنل میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر خاصی شہرت ملی۔ انہوں نے 87 گیندوں پر 75 رنز بنائے۔ بھارت نے یہ فائنل انگلینڈ کے خلاف کھیلا۔ اس میں محمد کیف نے یووراج سنگھ کے ساتھ مل کر 121 رنز بنائے اور بھارت کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ محمد کیف کی شہرت کی اصل وجہ ان کا بہترین فیلڈر ہونا تھا۔ ان جیسا فیلڈر کم ہی پیدا ہوتا ہے۔

عرفان پٹھان
عرفان پٹھان کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی مزید کچھ سال کھیل سکتے تھے۔ وہ نئی گیند سے بہت اچھی باؤلنگ کراتے تھے اور ان کی ان سوئنگ کو ہر بلے باز بڑی احتیاط سے کھیلتا تھا۔ وہ بلے بازی بھی کر لیتے تھے۔ ان کے بھائی یوسف پٹھان بھی کرکٹر تھے لیکن وہ اتنا نام نہیں کما سکے۔ 27 اکتوبر 1984ء کو پیدا ہونے والے عرفان پٹھان نے اپنا پہلا ٹیسٹ 12 دسمبر 2003ء کو آسٹریلیا کے خلاف کھیلا جبکہ پہلا ایک روزہ میچ بھی انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف 2004ء میں کھیلا۔ عرفان پٹھان نے 29 ٹیسٹ میچوں میں 1105 رنز بنائے اور ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 102 رنز تھا۔

انہوں نے 120 ایک روزہ میچوں میں 1544 رنز بنائے اور ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 83 رنز تھا۔ عرفان پٹھان نے 24 ٹی 20 میچ بھی کھیلے اور اس میدان میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ انہوں نے 24.6 رنز کی اوسط سے 172 رنز بنائے۔ عرفان پٹھان نے 29 ٹیسٹ میچوں میں 32.26 رنز کی اوسط سے 100 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے سات بار اننگز میں 5 وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ دو بار ایک میچ میں دس وکٹیں حاصل کیں۔

محمد شامی
محمد شامی اس وقت واحد مسلم کرکٹر ہیں جو اس وقت بھارتی کرکٹ ٹیم میں شامل ہیں۔ وہ ایک بہت عمدہ فاسٹ باؤلر ہیں جو 145 کلومیٹر کی رفتار سے باؤلنگ کراتے ہیں 3 ستمبر 1990ء کو امروہہ میں پیدا ہونے والے محمد شامی نے پہلا ٹیسٹ 21 نومبر 2013ء کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا جبکہ ان کا پہلا ایک روزہ میچ پاکستان کے خلاف تھا جو انہوں نے 6 جنوری 2013ء کو کھیلا۔ ان کا پہلا ٹی 20 میچ بھی پاکستان کے خلاف تھا۔ انہوں نے اب تک 40 ٹیسٹ میچوں میں 29.5 رنز کی اوسط سے 144 وکٹیں اپنے نام کی ہیں۔ حال ہی میں انگلینڈ میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں انہوں نے ایک میچ میں ہیٹ ٹرک کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ محمد شامی آئی پی ایل بھی بڑی باقاعدگی سے کھیلتے ہیں اور اس لیگ نے ان کی صلاحیتوں کو بہت نکھارا ہے۔ محمد شامی کا کیریئر اس وقت عروج پر ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ وہ آئندہ کافی عرصے تک بھارت کی قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہیںگے۔

مذکورہ بالا مسلمان کرکٹرز کے علاوہ کئی اور مسلمان کھلاڑیوں نے بھارت کی طرف سے کرکٹ کھیلی لیکن وہ خاصی پرانی بات ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اتنی زیادہ کرکٹ نہیں کھیلی۔ ان کھلاڑیوں میں غلام احمد، احسان الحق، مبارک علی، اصغر علی، امیر الٰہی،محمد نثار اور کئی دوسرے شامل ہیں۔

عبدالحفیظ ظفر

کوہلی کو دوبارہ ناچنے کا موقع نہ مل سکا

یہ ورلڈ کپ تھا ہی انڈیا کا۔ جس ٹیم میں ون ڈے کا نمبر ون بولر ہو، بہترین لیگ سپنر ہو، بہترین لیفٹ آرم سپنر ہو، دھونی جیسا مڈل آرڈر بلے باز ہو اور پھر وراٹ کوہلی کپتان ہو، روہت شرما اوپنر ہو کہ سنچریاں کرنا جس کی فطرتِ ثانیہ ہو۔ جب یہ ٹورنامنٹ شروع ہوا تھا، تبھی سے پیشگوئیاں ہو رہی تھیں کہ انڈیا اور انگلینڈ فائنل کھیلیں گے۔ گو آسٹریلیا بھی نہایت مضبوط ٹیم ہے، جنوبی افریقہ سے بھی کئی امیدیں جڑی تھیں۔ نہیں تھی تو بس نیوزی لینڈ کسی شمار قطار میں نہیں تھی۔ فائنل کھیلنا تو دور کی بات، کوئی یہ بھی نہیں کہہ رہا تھا کہ نیوزی لینڈ سیمی فائنل تک پہنچ پائے گی۔ اوپنرز کی فارم خراب تھی۔ اکیلے ولیمسن اس بیٹنگ لائن کو دھکا لگا رہے تھے اور واضح سی بات ہے کہ ایک اکیلا کھلاڑی بھلے کتنی ہی اچھی فارم میں ہو، تن تنہا اتنے بڑے ٹورنامنٹ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔

اگر پاکستان ویسٹ انڈیز کے خلاف اس قدر برے طریقے سے نہ ہارتا تو شاید ولیمسن کی ٹیم ایک ہفتہ پہلے ہی نیوزی لینڈ واپس پہنچ چکی ہوتی۔ لیکن تمام توقعات کو شکست دے کر، سبھی خدشات کو درست ثابت کرتے یہ ٹیم فائنل فور میں پہنچی۔ لیکن فائنل فور میں بھی ولیمسن کی ٹیم سب سے ہلکی ٹیم تھی۔ اس قدر ہلکی کہ باقی تینوں سیمی فائنلسٹس کی خواہش تھی کہ ان کا سیمی فائنل کیویز کے خلاف ہو، محض اس مفروضے کی بنیاد پہ کہ یہ آسان حریف ثابت ہو گی اور مخالف سیدھا فائنل میں پہنچ جائے گا۔ ولیمسن کے سامنے صورتِ حال واضح تھی کہ اوپنرز کی مخدوش فارم کے سبب سارے میچ کا دارومدار انہی پہ ہو گا۔ اگر کوئی قابلِ قدر ٹوٹل ترتیب دے لیا تو ان کا پیس اٹیک انڈین بیٹنگ کے بخیے ادھیڑ لے گا۔ نہ بھی سہی کوئی اپنی سی کوشش تو کرے گا۔

وراٹ کوہلی کے سامنے صورتحال اس قدر شفاف تھی کہ انہیں ٹیم سلیکشن سے لے کر گیم پلاننگ تک کہیں کسی تردد کا شکار نہیں ہونا پڑا۔ بھلے ولیمسن نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کر لی مگر کوہلی مطمئن تھے کہ اس شکستہ حال بیٹنگ لائن کے سامنے ان کا بولنگ اٹیک کافی ثابت ہو گا۔ پہلے پاور پلے میں انڈین بولنگ اس قدر مؤثر تھی کہ کیویز کے قدم ڈگمگاتے نظر آئے اور لڑکھڑاتی اننگز پہ کوہلی اس قدر مسرور تھے کہ اوورز کے درمیان کہیں ہلکا پھلکا ناچتے بھی دکھائی دیے۔ کوہلی بجا تھے، وہ ناچ بھی سکتے تھے کیونکہ اتنے بڑے پریشر میچ میں مخالف ٹیم پہلے دس اوورز میں ہی یوں ‘بیک فٹ’ پہ جا چکی تھی۔ اور اگر کل بارش نہ ہوتی تو انڈیا کے لیے یہ میچ سیدھا سیدھا سا رہتا۔

مگر مانچسٹر کے بادل کچھ اور ہی سوچ رہے تھے۔ جہاں تین گھنٹے بعد کوہلی کی ٹیم فتح کا جشن منانے کا سوچ رہی تھی، وہاں جیت بارش کی ہوئی اور یوں تاریخ میں پہلی بار ون ڈے انٹرنیشنل دو روزہ میچ بن گیا۔ رات بھر کی بارش، ابر آلود صبح اور سست وکٹ نے حالات فاسٹ بولنگ کے لیے سازگار کر ڈالے۔ کوہلی کی ٹیم کو یہ تبھی بھانپ لینا چاہیے تھا جب صبح سویرے تین اوورز میں ہی کیویز کی تین وکٹیں گر گئیں۔ روہت شرما کو محتاط ہو جانا چاہیے تھا، کے ایل راہول اور وراٹ کوہلی کو بھی وکٹ کی طبیعت کے مطابق اپنی شاٹس میں بدلاؤ لانا چاہیے تھا۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ کیوی اننگز کے آخری چار اوورز میں کوہلی کیویز کو چِڑانے میں پیش پیش رہے، بھد اڑانے کی بھرپور کوشش کی اور ٹیل اینڈرز تک کا مذاق اڑانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

بھلے وکٹ گیلی تھی اور کیوی پیسرز بھی بھرپور ردھم میں تھے لیکن اس قدر طویل اور اِن فارم بیٹنگ لائن کے لیے یہ ہدف کچھ بھی نہیں تھا۔ صرف وکٹ پہ رُکنے کی ضرورت تھی۔ مگر کوہلی کا دھیان شاید وکٹ کو سمجھنے سے زیادہ ناچنے پہ تھا۔ جبھی اس قدر سنسنی خیز میچ کے بعد، ہدف کے عین قریب آ کر بھی کوہلی کو دوبارہ ناچنے کا موقع نہ مل سکا۔ کیونکہ جو کام میچ ختم ہونے کے بعد کرنا تھا، وہ کافی پہلے میچ کے دوران ہی کثرت سے کر چکے تھے۔

سمیع چوہدری
بشکریہ بی بی سی اردو

جب پاکستانی ہاکی ٹیم کے لیے انڈیا میں دکانیں کھول دی گئیں

انڈیا اور پاکستان جب کھیل کے میدان میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں تو اس دوران جذبات میں شدت اور جارحانہ پن دیکھنے کو ملتا ہے۔ میدان کے اندر موجود کھلاڑیوں کے علاوہ تماشائیوں کا جوش بھی اپنے عروج پر ہوتا ہے۔
لیکن جب کھیل کے میدان سے باہر میزبانی اور میل جول کی بات آتی ہے تو یہ جوش اور جنون مزید بڑھ جاتا ہے، جو اپنی مثال آپ ہے۔ انڈیا کی سرزمین پر قدم رکھتے ساتھ ہی حسن سردار سنہ 1982 کی یادوں میں کھو جاتے ہیں جب انھوں نے اسی زمین پر پاکستان کے لیے ہاکی ورلڈ کپ جیتا تھا۔

حسن سردار نے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں 1981 سے ہی انڈیا آرہا ہوں اور ہر بار انڈیا کی جانب سے ہمیں بہت زیادہ پیار اور عزت ملتی ہے۔ جب ہم واپس وطن لوٹتے ہیں تو انڈیا کے لوگوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔‘ ’بالکل اسی طرح کا پیار اور عزت انڈین کھلاڑیوں کو بھی ملتی ہے جب وہ ہمارے یہاں آتے ہیں۔‘ یادوں میں جھانکتے ہوئے حسن دار نے بتایا کہ ممبئی کے دکانداروں نے ان کی درخواست پر صبح نو بجے اپنی دکانیں کھول دی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’سال 1982 میں بمبے میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد، ہماری دوپہر کی فلائٹ تھی۔ اس سے پہلے ہم کچھ خریداری کرنا چاہتے تھے۔ عام طور پر دکانیں صبح 11 بجے کھلتی تھیں لیکن جب دکانداروں کو پتا چلا کہ ہم کپڑے اور جوتے خریدنا چاہتے ہیں تو انھوں نے اپنی دکانیں صبح نو بجے ہی کھول دیں۔ یہ ایسی یادیں ہیں جو آج بھی ہمارے ذہن میں تازہ ہیں۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو

ویرات کوہلی دنیا کے سب سے بدتمیز کھلاڑی ہیں

بالی ووڈ کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے اںڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دنیا کے سب سے بدتمیز کھلاڑی ہیں۔ انڈین میڈیا کے مطابق نصیر الدین شاہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر کپتان ویرات کوہلی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ”ویرات کوہلی نا صرف دنیا کے سب سے بہترین بلے باز ہیں بلکہ سب سے بدتمیز کھلاڑی بھی ہیں۔ کرکٹ کی ان کی قابلیت ان کے غرور اور برے رویہ کے سامنے پھیکی پڑ جاتی ہے اور میرا ملک چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اداکار نصیر الدین شاہ نے اپنی پوسٹ کے ذریعہ ویرات کوہلی کے اس بیان پر ردعمل دیا جس میں انہوں نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو پسند کرنے والے مداحوں کو ملک چھوڑ کر چلے جانے کیلئے کہا تھا۔ کوہلی نے ایک پروموشنل پروگرام کے دوران ایک مداح کے تبصرے پر یہ بیان دیا تھا۔ اس پوسٹ نے سوشل میڈیا صارفین کی کافی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے، کچھ لوگوں نے اس پوسٹ کی حمایت جبکہ کچھ نے اس پر اعتراض کیا ہے۔ کچھ صارفین یوزرس نے ویرات کوہلی کو بدتمیز کہنے پر نصیر الدین شاہ کو آرے ہاتھوں لیا جبکہ کچھ نے کوہلی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا کو شکست سینے کیلئے اس طرح کے جارحانہ رویہ کی ضرورت ہے۔ ان میں سے متعدد صارفین ایسے بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ کوہلی کئی مرتبہ حد پار کر چکے ہیں۔

امپائر کے ساتھ نامناسب رویے پر ویرات کوہلی کو جرمانہ

امپائر کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کرنے پر ویرات کوہلی کو جرمانہ عائد کر دیا گیا، بھارتی کپتان نے آﺅٹ فیلڈ گیلا ہونے کی شنوائی نہ ہونے پر گیند کو گراﺅنڈ پر پٹخا تھا۔ بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہونے والے سنچورین ٹیسٹ کے تیسرے روز میزبان ٹیم کی دوسری اننگز کے دوران بارش کی وجہ سے میچ روکنا پڑا، کچھ دیر بعد امپائرز نے کھیل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو بھارتی کپتان نے آﺅٹ فیلڈ گیلا ہونے کی وجہ سے بار بار امپائر مائیکل گف سے شکایت کی اور شنوائی نہ ہونے پر گیند کو غصے میں زمین پر دے مارا۔ بعد ازاں خراب روشنی کے باعث کھیل روکنے پر بھی کوہلی برہمی کا اظہار کیا۔ آئی سی سی نے انہیں لیول ون کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 25 فیصد میچ فیس کا جرمانہ عائد کیا ہے جبکہ کوہلی کے کھاتے میں ایک منفی پوائنٹ بھی شامل کیا گیا ہے۔ بھارتی کپتان نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے سزا قبول کر لی ہے۔