کرکٹ : نوجوانوں کی گلی محلے کی کرکٹ اب ٹی ٹین کے نام سے بین الاقوامی سٹیڈیم میں کھیلی جائے گی

کرکٹ نے شائقین کی توجہ حاصل کرنے کے کئی مراحل طے کیے ہیں۔ دن کی کرکٹ رات میں بدلی۔ گیند اور پیرہن کے رنگ بدلے اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مصداق پانچ دن کی کرکٹ ایک دن کی کرکٹ میں تبدیل ہوئی پھر 50 اوورز سے معاملہ 20 اوورز تک آ گیا۔ اور اب ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے 10 اوورز کی کرکٹ سب کے سامنے آ رہی ہے۔ 10 اوورز کی کرکٹ کو عام طور پر گلی محلے کا کھیل سمجھا جاتا ہے لیکن اب اس گلی محلے کی کرکٹ کو کھیل کے مروجہ قواعد وضوابط کے مطابق سٹیڈیم میں لایا گیا ہے۔

10 اوورز کی اپنی نوعیت کی پہلی ٹی ٹین لیگ شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں شروع ہو رہی ہے جس میں چھ ٹیمیں پنجابی لیجنڈز، بنگال ٹائیگرز، کیرالہ کنگز، مراٹھا عربیئنز، پختونز اور ٹیم سری لنکا شامل ہیں۔ اس ٹی ٹین لیگ کے صدر سلمان اقبال کا کہنا ہے کہ آج کل نوجوان نسل انٹرنیٹ کی دلدادہ بن چکی ہے وہ عام طور پر فٹبال اور باسکٹ بال میں دلچسپی رکھتی ہے جن کا دورانیہ 90 منٹ ہوتا ہے۔ ’نوجوانوں کے پاس پورے دن کی کرکٹ کے لیے وقت نہیں ہے اور چونکہ یہ ٹی ٹین کرکٹ بھی ڈیڑھ گھنٹے دورانیے کی ہے لہٰذا مجھے یقین ہے کہ شائقین اسے پسند کریں گے‘۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق کے خیالات بھی اسی طرح کے ہیں جو اس ٹی ٹین لیگ کی ٹیم پنجابی لیجنڈز کی قیادت کر رہے ہیں۔ مصباح الحق کا کہنا ہے کہ کرکٹ کے کھیل میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کئی تجربات کیے جا چکے ہیں۔ ’یہ ٹی ٹین کرکٹ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو ان لوگوں کے لیے بہترین تفریح ثابت ہو گی جو تین گھنٹے کے ٹی ٹوئنٹی میں بھی اب اکتاہٹ محسوس کرنے لگے ہیں۔ اس طرز کی کرکٹ کا اصل مقصد یہی ہے کہ شائقین کو بڑی تعداد میں سٹیڈیم میں لایا جائے۔

مصباح الحق کا کہنا ہے کہ جو بھی تبدیلی آتی ہے وہ پہلے آزمائشی بنیادوں پر ہوتی ہے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگوں کی اس میں دلچسپی کتنی ہے اور اگر یہ تجربہ کامیاب رہا اور شائقین میں اسے پذیرائی حاصل رہی تو ایک وقت آئے گا کہ آئی سی سی بھی اسے تسلیم کرے گا۔ ٹی ٹین کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق آل راؤنڈر شاہد آفریدی کا من پسند فارمیٹ سمجھا جا رہا ہے۔ خود شاہد آفریدی اس ایونٹ کے لیے خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ مزید ایک سال تک ٹی ٹوئنٹی لیگس کھیل کر کریئر کا اختتام کر لیں گے لیکن اس ٹی ٹین کے آنے کے بعد لگ رہا ہے کہ ان کے لیے کرکٹ کو خیرباد کہنا آسان نہ ہو گا۔

شاہد آفریدی ٹی ٹین میں حصہ لینے والی ٹیم پختونز کے کپتان ہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد اس لیگ میں بنگال ٹائیگرز کے کپتان ہیں۔ سرفراز احمد بھی 10 اوورز کی اس لیگ کو شائقین کے لیے ایک بہترین تفریح سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ نوجوان کرکٹرز کو یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ سے اپنی توجہ ہرگز مت ہٹائیں جو درحقیقت اصل کرکٹ ہے۔ اس ٹی ٹین لیگ کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی منظوری حاصل ہے۔ آئی سی سی کے قواعد و ضوابط کے تحت اگر کوئی ایونٹ اس کے رکن بورڈ کے تحت ہو رہا ہو اور کم ازکم دو کرکٹ بورڈز اس کی حمایت کر رہے ہوں تو وہ آئی سی سی کا منظور شدہ ایونٹ کہلاتا ہے۔

واضح رہے کہ ٹی ٹین لیگ کا میزبان امارات کرکٹ بورڈ ہے اور اسے پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے کرکٹ بورڈز کی حمایت حاصل ہے۔ اس ٹی ٹین لیگ میں شریک سری لنکن ٹیم خود سری لنکن کرکٹ بورڈ نے منتخب کی ہے۔ اس فرنچائز لیگ کے مالکان متحدہ عرب امارات میں مقیم بھارتی اور پاکستانی ہیں۔
اس لیگ میں پاکستان اور دیگر ممالک کے کئی اسٹار کرکٹرز حصہ لے رہے ہیں جن کا انتخاب آئی پی ایل اور پی ایس ایل کی طرز پر ڈرافٹنگ کے ذریعے کیا گیا ہے۔

غیر ملکی کرکٹرز میں انگلینڈ کے ون ڈے کپتان اوئن مورگن، الیکس ہیلز، بھارت کے وریندر سہواگ، ویسٹ انڈیز کے ڈیرن سیمی، کارلوس بریتھ ویٹ، ڈیرن براوو، ڈوئن براوو، بنگلہ دیش کے شکیب الحسن، تمیم اقبال اور نیوزی لینڈ کے لیوک رانکی قابل ذکر ہیں۔ سابق کرکٹرز وسیم اکرم، وقار یونس، معین خان اور مشتاق احمد اس ایونٹ میں کوچز کے روپ میں نظر آئیں گے۔

عبدالرشید شکور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
 

بوم بوم آفریدی : نوجوانوں کیلئے ایک رول ماڈل

آسٹریلیا کے سابق کپتان اور عظیم بلے باز آئن چیپل کا کہنا ہے کہ بہت سے نوجوان اسلئے کرکٹ کی طرف راغب ہوتے ہیں کہ اُن کے سامنے کرکٹ کا کوئی رول ماڈل ہوتا ہے۔ وہ اسلئے کرکٹ دیکھتے ہیں کہ یہ ایک مقبول کھیل ہے اور پھر کوئی نہ کوئی عظیم کھلاڑی اُن کی نظر میں آ جاتا ہے جسے وہ اپنا رول ماڈل بناتے ہوئے کرکٹ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ کیا وہ بھی اپنے ہیرو کی طرح اس کھیل میں مہارت حاصل کر پائیں گے اور اُس جیسے کارنامے انجام دے پائیں گے۔ یوں وہ اپنی جستجو کے سفر کا آغاز کر دیتے ہیں۔
آئن چیپل کہتے ہیں کہ جب تک نوجوانوں کیلئے ایسے ہیرو موجود رہیں گے جن کی وہ تقلید کر سکیں، اُس وقت تک کرکٹ انتہائی مقبول اور مضبوط کھیل رہے گا۔

شاہد آفریدی بھی ایک ایسے ہی ہیرو رہے ہیں جن کی لاکھوں نوجوان تقلید کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ بوم بوم شاہد آفریدی T20 کرکٹ کیلئے موذوں ترین آل راؤنڈر رہے ہیں۔ اگرچہ عمر اب اُن کا ساتھ نہیں دے رہی، پھر بھی اُن کے چہرے پر اب بھی وہی مسکان دکھائی دیتی ہے جس سے شائقین گزشتہ 21 برس سے مانوس رہے ہیں۔ اُن کی یہ مسکان ہمیشہ کرکٹ کیلئے اُن کے جنون کو ظاہر کرتی رہی ہے۔ اُنہوں نے حال ہی میں برطانیہ میں نیٹ ویسٹ T20 بلاسٹ چیمپین شپ کے دوران ہیمپ شائر کاؤنٹی کیلئے T20 میچ کھیلے، جہاں انہوں نے 42 بالوں پر سینچری بھی اسکور کی لیکن مجموعی طور پر ان کے کھیل میں وہ بات نہیں رہی جو اُن کے عروج کے دوران اُن کا خاصہ تھی۔ 2009 کے WT20 کے سیمی فائنل اور پھر فائنل میں اپنی بیٹنگ اور بالنگ کے ذریعے اُنہوں نے حریف ٹیموں کو زیر کرتے ہوئے پاکستان کیلئے عالمی کپ جیتا۔ وکٹیں حاصل کرنے کے بعد دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کر کامیابی کے اظہار کا وہ منظر کون بھلا سکتا ہے۔ وہ یقیناً T20 کے اولین بادشاہ تھے۔

​آج اگر آپ کسی بہترین T20 بالر کا تصور کرتے ہیں تو وہ شاید انتہائی تیز رفتار بالر ہو گا یا پھر ایسا سپنر جو گیند کو دونوں جانب گھما سکتا ہو۔ اور اگر آپ بہترین T20 بلے باز کا تصور کرتے ہیں تو وہ شاید ایسا بلے باز ہو گا جو کسی بھی مرحلے پر 9 رنز فی اوور کی رفتار سے بیٹنگ کر سکتا ہو۔ بوم بوم آفریدی میں یہ دونوں خوبیاں اُس وقت بھی موجود تھیں جب لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ T20 میچ کیسا ہوتا ہے۔ کرکٹ کے کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے آندرے رسل T20 کیلئے موذوں ترین کرکٹر ہیں۔ لیکن جو لوگ کرکٹ کو جانتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ آندرے رسل پاور پلے کے دوران اس قدر کامیاب ثابت نہیں ہوئے۔ شاہد آفریدی ایک ایسے بالر تھے جو کھیل کے کسی بھی مرحلے پر مخالف ٹیم کو شدید دباؤ میں مبتلا کر دیتے تھے اور وہ میچ کے 20 اووروں کے دوران کسی بھی وقت زوردار بیٹنگ کر سکتے تھے۔

کرکٹ کے معروف مبصر جیرڈ کیمبر کے مطابق آفرید ی کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ وقت سے ہمیشہ آگے رہے۔ بیشتر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ وہ T20 کھلاڑیوں کیلئے ایک مثالی کرکٹر تھے۔ وہ اُس وقت چوکے اور چھکے لگاتے تھے جب دوسرے کرکٹر محض ایک ایک رن بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے تھے۔ ایک مرحلے پر کرس گیل بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ رسکی سنگل بنانے کے مقابلے میں رسکی چوکے چھکے لگانا کہیں بہتر ہے۔ آفریدی ہمیشہ اس انداز میں بیٹنگ کرتے تھے گویا یہ میچ کا آخری مرحلہ ہے۔ سپنر کے طور پر اُنہیں کھیلنا منجھے ہوئے بلے بازوں کیلئے بھی بہت مشکل رہا ہے۔

وہ اس انداز کی کرکٹ کیلئے فطری مہارت رکھتے تھے۔ اب T20 کرکٹ آگے نکل چکی ہے۔ اب بہت سے ایسے بلے باز دکھائی دینے لگے ہیں جو آفریدی کی طرح زوردار بیٹنگ کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ لیکن آفریدی کی منفرد حیثیت اسلئے اہم ہے کہ وہ اُس وقت بھی ایک مثالی کرکٹر تھے جب دیگر منجھے ہوئے کرکٹر T20 کرکٹ کی ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اب بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بوم بوم آفریدی پہلے جیسے نہیں رہے۔ لیکن نوجوانوں کیلئے وہ اب بھی ایک رول ماڈل ہیں۔

 

رونالڈینہو نے شاہد آفریدی کو پاکستان کرکٹ کا ہیرو قرار دیدیا

اسٹار برازیلین فٹبالر رونالڈینہو نے شاہد آفریدی کو پاکستان کرکٹ کا ہیرو قرار دے دیا۔ رونالڈینہو نے سوشل میڈیا پر آفریدی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ شاہد آفریدی پاکستان کرکٹ کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ جولائی میں اپنے دورہ پاکستان کا بے صبری سے منتظر ہوں۔
Feliz pelas palavras Shahid Afridi BOOM BOOM herói de críquete do Paquistão. Aguardo c grande expectativa minha visita ao Paquistão em julho
 
 Ronaldinho Gaúcho (@10Ronaldinho 
رونالڈینہو برطانیہ سے تعلق رکھنے والی لائزر لیگز کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کریں گے جہاں وہ پاکستان میں نوجوان پلیئرز کو جدید تکنیک سے آگاہ کریں گے اور دیگر نامور فٹبالرز کے ساتھ پاکستان فٹبال ٹیم کے ساتھ نمائشی فٹبال میچ بھی کھیلیں گے۔ 
Pakistan I’m coming! 🇵🇰  
جس پر شاہد آفریدی نے جواباً لکھا تھا کہ پاکستان میں آپ کو خوش آمدید کہیں گے، آپ جیسے انٹرنیشنل اسپورٹس اسٹارز کی پاکستان آمد ہمارے لیے باعث مسرت ہے۔
– Welcome @10Ronaldinho it is good to see more international sportsmen visiting my beloved country 

اب دوسرا لالہ نہیں آئے گا

شارجہ میں جب شاہد آفریدی نے یہ واضح کیا کہ اب ان کا انٹرنیشنل کرکٹ میں
واپسی کا کوئی ارادہ نہیں، تو یہ کوئی بریکنگ نیوز نہیں تھی محض ایک طے شدہ حقیقت کا اعتراف تھا۔  20 سال سے زیادہ عرصے پہ محیط اس کریئر کا آغاز جتنا ڈرامائی تھا، انجام اتنا ہی غیر دلچسپ ثابت ہوا۔ شاید یہ فیصلہ شاہد آفریدی کو کچھ سال پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں کہ انہوں نے پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لی ہو۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی مواقع پہ دلبرداشتہ ہو کر ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں مگر اس بار ان کی واپسی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔

اگر اعدادوشمار سے ہٹ کر دیکھا جائے تو آفریدی نے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا یادگار ترین کریئر دیکھا ہے۔ ان کی فارم جو بھی رہی، قوم نے ہمیشہ اپنی امیدیں انھی سے وابستہ رکھیں۔ کوئی بھی میچ ہو، دنیا کا کوئی بھی میدان ہو، خطرناک سے خطرناک بولر سامنے ہو لیکن آفریدی کے کریز پر آتے ہی ایسا لگتا تھا کہ کچھ انہونی سی ہونے کو ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب ایک کھلاڑی مسلسل تین چار میچوں میں کارکردگی نہ دکھا پائے تو لوگ اس سے مایوس ہونے لگتے ہیں، ٹیم میں اس کی جگہ پہ سوال اٹھنے لگتے ہیں اور کرکٹ شائقین بھی اسے بھولنے لگتے ہیں مگر آفریدی کے مداحوں نے اس مسلمہ اصول کو بھی غلط ثابت کر دکھایا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ آج سے دس سال پہلے پوری قوم آفریدی کو پسند کرتی تھی۔ جس ٹیم میں انہوں نے ڈیبیو کیا، وہ بڑے ناموں سے بھری ہوئی تھی اور آفریدی پہ زیادہ ذمہ داریاں نہیں تھی مگر جوں جوں وہ بڑے نام ایک ایک کر کے ڈریسنگ روم سے رخصت ہوتے گئے، آفریدی پر ذمہ داری کا بوجھ پڑتا گیا اور ان کی فارم اس بوجھ تلے ماند پڑتی گئی۔ جس دور میں آفریدی نے ون ڈے کی تیز ترین سینچری بنائی تب نہ تو کوئی پاور پلے ہوا کرتے تھے، نہ دونوں اینڈ سے نئے گیند استعمال ہوتی تھی اور نہ ہی اس طرح کے بیٹ موجود تھے جو آج کرس گیل، ڈی ویلیئرز اور وارنر جیسوں کے پاس ہیں اور پھر وہ سینچری ہی آفریدی کی پہچان بن گئی۔

کرکٹ سٹارڈم کو اگر ٹی وی ریٹنگز کے پیرائے میں دیکھا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جیسے ایک ٹی وی پروڈیوسر کی مجبوری ہوتی ہے کہ اسے کوالٹی سے قطع نظر صرف ریٹنگ پیدا کرنی ہے، ویسے ہی کرکٹ سٹارز کو بھی میچ کی صورت حال اور ٹیم کی ضروریات سے ماورا ہو کر صرف اپنی گیم کرنا پڑتی ہے۔ آفریدی کا بھی یہی مسئلہ تھا۔ ایک طرف ٹیم کی ضروریات تھیں اور دوسری طرف مداحوں کی خواہشات۔ آفریدی نے زیادہ تر مداحوں کی خواہشات کا ہی احترام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کہیں میچ ہو رہا ہو اور آفریدی بیٹنگ پر آئیں تو سبھی اچانک سکرین کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں لیکن اس لیے نہیں کہ لالہ میچ جتائے گا، انتظار ہوتا ہے تو صرف اس بات کا کہ آج لالہ کتنے چھکے لگائے گا۔
مگر ہمیشہ ایسا بھی معاملہ نہیں رہا۔ کئی مواقع پہ آفریدی نے توقعات سے کہیں بڑھ کر ذمہ داری کا ثبوت بھی دیا۔ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009 کے سیمی فائنل اور فائنل میں جو اننگز آفریدی نے کھیلیں، وہ نہ صرف ان کے اپنے کریئر کی بلکہ بحیثیت مجموعی آئی سی سی ایونٹس میں بھی کسی پاکستانی کی بہترین اننگز تھیں۔ یہ بات گو بحث کی متقاضی ہے کہ کیا آفریدی نے اپنے ٹیلنٹ سے بھرپور انصاف کیا یا نہیں؟ ایشیا کپ کے میچ میں پاکستان اور بھارت مدمقابل ہیں۔ آخری اوور میں جیت کے لیے دس رنز درکار ہیں اور شاہد آفریدی کریز پر موجود ہیں، کروڑوں شائقین کی سانسیں رکی ہوئی ہیں۔ ایشون آئے، پہلی بال پہ سعید اجمل بولڈ ہوئے، دوسری پہ جنید خان نے سنگل لیا اور آفریدی سٹرائیک پر آ گئے۔
تیسری اور چوتھی گیند کہاں سے آئی کیسے آئی، نہیں یاد۔ یاد ہے تو بس اتنا کہ چوتھی گیند پہ جب آفریدی نے بلا گھمایا تو دس سیکنڈز کے لئے گویا پوری دنیا میں خاموشی چھا گئی۔ اور اس سکوت کو توڑا رمیز راجہ کی آواز نے۔۔۔۔ “آفریدی! یو بیوٹی” یہ تھا وہ آفریدی جو ان کے مداح دیکھنا چاہتے تھے اور آفریدی نے بھی اپنا کریئر ویسا ہی گزارا جیسا ان کے مداح انھیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر اب شاید یہ قوم ایسا کوئی کریئر نہیں دیکھنا چاہے گی اور اب کوئی دوسرا لالہ بھی نہیں آئے گا۔
سمیع چوہدری
کرکٹ تجزیہ کار

اب کرکٹ صرف شائقین کے لیے

پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی انٹرنیشنل کرکٹ ختم کر چکے اور اب جتنی بھی کرکٹ وہ کھیل رہے ہیں وہ اپنے چاہنے والوں کے لیے ہے۔ پاکستان سپر لیگ میں پشاور زلمی اور کراچی کنگز کے درمیان میچ کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شاہد آفریدی نے کہا کہ وہ اپنے شائقین کے لیے کرکٹ کھیل رہے ہیں اور یہ کرکٹ پاکستانی ٹیم میں واپسی کے لیے نہیں ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے الوداعی میچ کا بھی بہت ذکر رہا تو کیا اب بھی آپ اس بارے میں سوچ رہے ہیں؟
شاہد آفریدی کا جواب تھا:’نہیں جی، خدا حافظ ہو چکا ہے۔ میں اپنی کرکٹ اپنے چاہنے والوں کے لیے کھیل رہا ہوں۔ جتنی بھی باقی ہے سال دو سال مزید کھیلوں گا۔ اس وقت میرے لیے سب سے اہم میری فاؤنڈیشن ہے اسے چلانا ہے۔ جتنی سنجیدگی اور پروفیشنل طریقے سے اپنے ملک کے لیے کھیلنا تھا وہ میں کھیلا ہوں۔‘ نامہ نگار عبدالرشید شکور کے مطابق شاہد آفریدی سے جب پوچھا گیا کہ اپنی کرکٹ سے کتنا لطف اٹھا رہے ہیں؟ جس کا جواب انہوں نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ دیتے ہوئے کہا ’نظر آرہا ہے۔‘
یاد رہے کہ شاہد آفریدی نے یہ کہا تھا کہ وہ انڈیا میں منعقدہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے اختتام پر بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ دیں گے لیکن عالمی مقابلے میں پاکستانی ٹیم کی شکست کے بعد وہ اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے سلسلے میں تذبذب کا شکار دکھائی دیے۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق کی خواہش تھی کہ شاہد آفریدی کو ایک میچ میں موقع دے کر بین الاقوامی کرکٹ سے رخصت کیا جائے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس تجویز کو رد کر دیا۔
36 سالہ شاہد آفریدی کا بین الاقوامی کریئر 21 سال پر محیط رہا ۔ اس طویل عرصے میں انہوں نے 48 ٹیسٹ، 398 ون ڈے انٹرنیشنل اور 98 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ وہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ 97 وکٹیں حاصل کرنے والے بولر ہیں۔ انہیں ون ڈے انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ 351 چھکے لگانے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔ شاہد آفریدی نے اکتوبر 1996 ء میں سری لنکا کے خلاف صرف37 گیندوں پر سنچری مکمل کی تھی جو 18 سال تک ون ڈے انٹرنیشنل کی تیز ترین سنچری کا عالمی ریکارڈ رہا۔
یہ ریکارڈ پہلے نیوزی لینڈ کے کوری اینڈرسن نے 36 گیندوں پر سنچری بنا کر توڑا لیکن ایک سال بعد ہی جنوبی افریقہ کے اے بی ڈی ویلیئرز نے 31 گیندوں پر سنچری بنا کر یہ ریکارڈ اپنے نام کر لیا۔

کرکٹ کے شوقین جنید جمشید

ٹی وی پر طیارے کے حادثے کی بریکنگ نیوز دیکھی تو دل بجھ سا گیا، پھر جب پتا چلا کہ اس میں جنید جمشید بھی سوار تھے تو پھر دُکھ، تکلیف اور رنج کا یہ عالم ہوا کہ جیسے کوئی قریبی شخص بچھڑ گیا ہو، حالانکہ اب تو ان سے ملاقاتیں بھی بہت کم ہوتی تھیں، البتہ کبھی کبھار میں فون کرلیا کرتا تھا تو ان کا مخصوص خوشگوار انداز میں بات کرنا دل خوش کر دیتا تھا۔ 1995ء سے 1999ء تک میں نے کرکٹ میگزین ’’اخبار وطن‘‘ میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔ اُس دور میں شاہد آفریدی اور ثقلین مشتاق سمیت کئی لوگوں سے دوستیاں ہوئیں جو اب تک برقرار ہیں۔ جنید بھائی سے پہلی ملاقات بھی تب ہی ہوئی، اخبار وطن کے مرحوم منیر حسین صاحب نے ہی مجھے اسپورٹس صحافت میں متعارف کرایا تھا۔ اسی ادارے سے ایک فلمی میگزین ’’فلم ایشیا‘‘ بھی شائع ہوتا تھا۔ کرکٹ کے بعد فلم اور میوزک میرے دیگر شوق ہیں، منیر صاحب نے اِسی شوق کو دیکھتے ہوئے مجھ سے فلم ایشیاء کیلئے بھی انٹرویوز کرنے کا کہا۔ اُس دورمیں جنید جمشید، سلمان احمد، علی حیدر اور سجاد علی عروج پر تھے، ان سے کئی ملاقاتیں ہونے لگیں مگر جنید جمشید کی بات الگ تھی۔
جب کبھی ان کے گھر جانا ہوتا تو عموماً وہ لنچ پر مدعو کرتے جہاں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کوئی بڑی شخصیت ہیں، کرکٹ کا انہیں بھی بہت شوق تھا، وہ کھیل کی باریکیوں کو سمجھتے تھے، پھر زندگی میں پہلی بار جب منیر صاحب کے ساتھ شارجہ گیا تو وہاں ایک دن دورانِ میچ پتا چلا کہ جنید جمشید بھی آئے ہوئے ہیں، تلاش کیا تو مسجد میں ملے، اُس وقت تک ان کی داڑھی تھی نہ انہوں نے تبلیغ کا کام شروع کیا تھا مگرنماز کی پابندی کرتے تھے۔ وہ موسیقی چھوڑنے سے پہلے بھی اچھے انسان تھے اور بعد میں بھی ویسے ہی رہے، انہوں نے خود کو دین کی تبلیغ کیلئے وقف کرلیا تو ان کی مصروفیات کی وجہ سے ملاقاتیں کم ہو گئیں، مگر فون اور ای میل پر کبھی کبھار رابطہ رہتا تھا۔ جب میں ان کو فون کر کے کہتا
’’جنید بھائی اب تو آپ ملتے ہی نہیں، بھول نہ جائیے گا تو وہ اپنے مخصوص انداز میں کہتے، سلیم تم میرے دل میں رہتے ہو کیسے بھول سکتا ہوں‘‘۔
ان سے جڑا ایک واقعہ مجھے اب تک یاد ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ شہرت کی بلندیوں پر تھے، میں نے اپنے بڑے بھائی کی شادی میں انہیں مدعو کیا، وہ کسی وجہ سے نہیں آسکے، پھر کچھ عرصے ہماری بات نہ ہوئی۔ ایک دن اچانک وہ اخبار وطن کے دفتر آ گئے اور کہنے لگے ’’ارے تم کہاں غائب ہو کوئی خبر نہیں، ناراض تو نہیں ہوگئے؟ پھر انہوں نے جیب سے اپنے کنسرٹ کے کئی ٹکٹ نکال کر دیے اور کہا ضرور آنا، پھر واپس چلے گئے۔
وہ کرکٹ کے بہت شوقین تھے، سعید انور اور شاہد آفریدی سمیت کئی کرکٹرز سے ان کی گہری دوستی رہی۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ ان کے اب اس دنیا میں نہ ہونے سے خصوصاً شاہد آفریدی پر کیا گزری ہوگی۔ گزشتہ دنوں جنون گروپ کے سلمان احمد ’’ایکسپریس نیوز‘‘ کے کسی پروگرام کیلئے دفتر آئے تھے، مجھے پتا چلا تو ان سے ملنے گیا وہ روایتی گرمجوشی سے ملے، اُس وقت میرے ذہن میں خیال آیا کہ کسی دن ایسا پروگرام بناتے ہیں جس میں جنید بھائی اور سلمان بھائی دونوں سے کرکٹ پر خوب باتیں ہوں، مگر افسوس اس کا موقع نہ مل سکا۔
جنید جمشید سے زیادہ قربت کا دعویٰ نہیں کرتا مگر ان کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ جس سے ملتے وہ سمجھتا کہ ان کے بہت قریب ہے۔ ایسی کوالٹی مرحوم ڈاکٹر محمد علی شاہ میں بھی تھی، شاید یہی وجہ ہے کہ آج دونوں شخصیات کی دنیا سے رخصتی کے باوجود بھی لوگ اُنہیں اچھے الفاظ یاد کرتے ہیں۔ جنید جمشید کی موت پر بھی لوگ ایسے افسوس کر رہے ہیں جیسے ان کا کوئی اپنا دنیا سے گیا ہو، ایسی عزت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔
سلیم خالق

شاہد آفریدی اور میانداد میں پھر سے دوستی

پاکستان کے سابق کپتان جاوید میانداد نے آل راؤنڈر شاہد آفریدی سے متعلق تمام
الزامات واپس لے لیے ہیں جس کے بعد دونوں کے درمیان اختلافات ختم ہوگئے ہیں۔ سنیچر کے روز جاوید میانداد اور شاہد آفریدی کی ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں جاوید میانداد نے شاہد آفریدی کے ساتھ ہاتھ ملا کر ان سے متعلق اپنے الفاظ واپس لے لیے۔ اس موقع پر جاوید میانداد نے کہا کہ ’یہ اچھی بات ہے کہ شاہد آفریدی میرے ساتھ ہے اور یہ میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں۔ میں نے شاہد آفریدی سے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ غصہ میں کہا تھا لہذا میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔‘

اس کے بعد شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ انھوں نے جاوید میانداد سے کبھی معافی کا مطالبہ نہیں کیا تھا کیونکہ ان کے بقول وہ ان کے سینیئر ہیں۔ تاہم شاہد آفریدی نے کہا کہ جاوید میانداد کے الفاظ سے ان کے خاندان والوں اور شائقین کو دکھ ہوا تھا لیکن اب جب جاوید میانداد نے اپنے الفاظ واپس لے لیے ہیں تو یہ ان کے چاہنے والوں اور خاندان والوں کے لیے بہت بڑی بات ہے۔ انھوں نے جاوید میانداد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے اور یقیناً ہوئئ ہوگی اس پر میں معافی مانگتا ہوں۔‘ اس کے بعد دونوں نے ایک دوسرے ہاتھ ملائے اور ایک دوسرے کو میٹھائی کھلا کر اختلافات کو ختم کر دیا۔

خیال رہے کہ آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان جاوید میانداد کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا تھا۔ شاہد آفریدی نے یہ فیصلہ جاوید میانداد کے ان ریمارکس کے بعد کیا تھا جن میں انھوں نے شاہد آفریدی پر مبینہ طور پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

میانداد اور آفریدی آمنے سامنے

پاکستان کرکٹ میں تنازعات کوئی نئی چیز نہیں،کھلاڑیوں کے مابین اختلافات بھی ہمیشہ رہے ہیں، کبھی یہ ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں تو کبھی پیشہ وارانہ، پیشہ وارانہ رقابت کا تو فائدہ کھیل کے میدان میں ہوتا ہے جیسا کہ وسیم اکرم اور وقار یونس کے مابین تعلقات کشیدہ تھے تو دونوں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لمبی بالنگ کرنے اور زیادہ وکٹیں لینے کی کوشش کرتے تھے اس مسابقت کا فائدہ پاکستان ٹیم کو ہوتا تھا اسی طرح سعید انور اور عامر سہیل بھی ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہوئے زیادہ رنز بنانے کی کوششوں میں رہتے تھے اس مقابلہ بازی میں بھی فائدہ قومی ٹیم کا ہی ہوتا تھا۔ بعض کرکٹرز تو لمبی کرکٹ اور بہتر کاکردگی کے لیے اپنی ذات سے ہی مقابلہ کیے رکھتے تھے۔ اس فہرست میں خاصے کھلاڑی ہیں اور اس قسم کی مقابلہ بازی پر یقین رکھنے والوں نے ناصرف لمبی کرکٹ کھیلی بلکہ تاریخی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ حنیف محمد  فضل محمود، امتیاز احمد، اے ایچ کاردار سے شروع ہونیوالا یہ سفر آج بھی مصباح الحق اور یونس خان کی موجودگی میں جاری ہے۔

مختصر یہ کہ پیشہ وارانہ مقابلہ بازی کا فائدہ اور ذاتی اختلافات کا ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔ ان دنوں بھی پاکستان کرکٹ میں دو کھلاڑیوں کے مابین الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ اس مرتبہ جاوید میانداد اور شاہد آفریدی آمنے سامنے ہیں۔ ماضی کیطرح بیانات کی اس جنگ کا بھی نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا اگر نقصان ہوا تو وہ صرف پاکستان کا ہی ہو گا۔ قومی سطح پر نفرت بڑھے گی اور بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ خراب ہو گی۔ جاوید میانداد نے تو آفریدی پر میچ فکسنگ کے بھی الزامات لگائے ہیں۔ یہ الزامات بہرحال سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو جاوید میانداد کے الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس معاملہ پر گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی اطلاعات آ رہی ہیں کہ آفریدی نے اس معاملے پر جاوید میانداد کو قانونی نوٹس بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

گذشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے خاصی بحث جاری ہے دونوں کھلاڑیوں کے پرستار اپنے اپنے پسندیدہ کرکٹرز کا دفاع کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں یہ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات ہے کہ اپنے ہی ملک کے کھلاڑیوں کو اپنے ہی لوگ بڑا بھلا کہنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں ہیں۔ دونوں کے پرستار اپنے پسندیدہ کرکٹرز کو لیجنڈ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں مثالی، تاریخی اور ناقابل فراموش کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالوں کو لیجنڈ کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں ٹیسٹ کرکٹ کے ریکارڈز کو ہمیشہ سے اہمیت دی جاتی رہی ہے اور دی جاتی رہے گی۔ جہاں تک کھیل کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جاوید میانداد حقیقی معنوں میں ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتے ہیں ایک روزہ اور ٹیسٹ کرکٹ میں انکے کارنامے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں انہوں نے متعدد مواقع پر پاکستان کو تن تنہا فتح دلائی اور متعدد مواقع پر ٹیم پاکستان کو شکست سے بھی بچایا۔
انہوں نے 124 ٹیسٹ میچوں کی 189 اننگز میں 8832 رنز 57•52 کی اوسط سے سکور کیے ہیں جبکہ 233 ون ڈے میچوں کی 218 اننگز میں 7318 رنز 70•41 کی اوسط سے سکور کر رکھے ہیں۔ انکی بہت سی انفرادی اننگز یادگار اور تاریخی اہمیت کی بھی حامل ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین اور مبصرین انہیں ایک بہترین کرکٹر کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ دوسری طرف شاہد آفریدی ہیں انہوں نے بھی چند ایک عالمی ریکارڈز اپنے نام کر رکھے ہیں۔ کئی ایک کامیابیاں انکی وجہ سے بھی پاکستان کو ملیں۔ 2009 کی ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی چیمپئن شپ میں ان کی تحمل مزاجی سے بلے بازی نمایاں ہے لیکن اس ٹورنامنٹ میں کامران اکمل بھی ٹاپ سکورر رہے۔ اسکے علاوہ انفرادی طور پر محدود اوورز کی کرکٹ میں انہوں نے کئی ایک کامیابیاں تن تنہا دلائی ہیں۔ شاید آفریدی کے 27 ٹیسٹ میچوں کی 48 اننگز میں صرف 1716 رنز ہیں۔ 398 ون ڈے میچوں کی 369 اننگز میں 57•23 کی اوسط سے 8064 رنز سکور کیے ہیں اور ان میچوں میں بالنگ کرتے ہوئے 395 وکٹیں بھی حاصل کر رکھی ہیں۔ 
سو اس کارکردگی پر لیجنڈ قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں اسکا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑے دیتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان میں عوامی سطح پر شاہد آفریدی کی مقبولیت جاوید میانداد سے زیادہ ہے لیکن کیا عوامی مقبولیت لیجنڈ کا درجہ دینے کا پیمانہ ہے یا پھر اسکا فیصلہ کھیل کا میدان کرتا ہے۔ جہاں تک تعلق شاید آفریدی کے فئیر ویل کا ہے تو اس معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے پاکستان سپر لیگ کے دوران اس حوالے سے کوئی تقریب متوقع ہے۔ شاہد آفریدی ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی چیمپئن شپ کو اپنا آخری ٹورنامنٹ قرار دے چکے تھے پھر انہوں نے عزت سے ریٹائرمنٹ کا وہ موقع ضائع کیوں کیا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ عوام کے سوا کسی کو جوابدہ نہیں۔ 
کیا انہیں سلیکٹ کسی عوامی سلیکشن کمیٹی نے کہا تھا، کیا وہ دنیا بھر میں کرکٹ عوام کے خرچے پر کھیلتے رہے،کیا انہیں میچوں کا معاوضہ کوئی عوامی نمائندہ دیتا رہا؟؟؟؟ یہ وہ تضادات ہیں جس وجہ سے شاہد آفریدی ایک مرتبہ پھر متنازعہ ہوئے ہیں اور انہوں نے خود ناقدین کو مختلف پہلووں پر غور کرنے اور بات کرنیکا موقع فراہم کیا ہے۔ ہماری رائے میں پاکستان کرکٹ بورڈ سے منسلک ہر کرکٹر اپنی کارکردگی کے بارے میں سب سے پہلے پی سی بی کو جوابدہ ہے کیونکہ اس بارے فیصلہ کرنیکا مجاز ادارہ وہی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ شاہد آفریدی ہی کیا جاوید میانداد نے بھی کھیل کے میدانوں کو قابل عزت انداز سے الوداع نہیں کہا۔ ماہرین کے مطابق جاوید میانداد نے بھی 1996 کا عالمی کپ زبردستی کھیلا۔
اگر بات کرکٹرز کے حوالے سے کی جائے تو کوئی بھی کھلاڑی کھیل سے بڑا نہیں ہوتا اور جو کچھ ان کرکٹرز نے ملک کو دیا ہے اس ملک نے ان کھلاڑیوں کو اس سے بہت بڑھکر دیا ہے۔ عزت، دولت، شہرت، نام، مقام، مرتبہ اور پرتعیش زندگی یہ سب اس ملک کی ہی دیں ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ بیان بازی کرنے سے پہلے ذرا اس ملک کی عمارتوں پر یہ کچھ غور فرما لیا کریں۔ جاوید میانداد اور شاہد آفریدی کا حالیہ جھگڑا تکلیف دہ واقعات میں ایک اور اضافہ ہے۔
حافظ محمد عمران

جاوید میانداد نے شاہد آفریدی کو معاف کر دیا

 شاہد آفریدی اور جاوید میانداد کے درمیان سرد جنگ ختم ہوگئی ، جاوید میانداد نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاہد آفریدی کو معاف کر دیا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ بھی منسوخ کر دیا ہے ۔ شاہد آفریدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ٹویٹ میں کہا کوئی بھی مجھ پر ملک بیچنے کا الزام نہیں لگا سکتا۔ جاوید بھائی کو اپنا بڑا بھائی سمجھتا ہوںِ۔ جاوید بھائی نے مجھے معاف کر دیا اس پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

   Javed Bhai has pardoned me? Thanks, But has he withdrawn his allegations, what has he got to say to that? — Shahid Afridi (@SAfridiOfficial) October 11, 2016

ان کا مزید کہنا تھا کیا انہوں نے اپنے الزامات واپس لے لیے ہیںِ۔ اگر جاوید میاں داد اپنے الفاظ واپس نہیں لیں گے تو وہ خود کو کلئیر کرانے کے لیے عدالت جائیں گے۔ واضح رہے کہ جاوید میانداد نے شاہد آفریدی کی جانب سے بیان بازی کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہد آفریدی میچ فکسر ہیں اور انہوں نے کئی اہم مواقع پر میچ فکس کئے۔   اس سے قبل شاہد آفریدی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جاوید میانداد کو دولت سے پیار ہے وہ صرف پیسوں کیلئے کرکٹ کھیلتے ہیں جس کے بعد دونوں کے درمیان گرما گرم جنگ کا آغاز ہو گیا تھا ۔ بات عدالتی نوٹس اور کارروائی تک جا پہنچی تو وسیم اکرم ، توقیر ضیا اور پی سی بی کے دوسرے اہلکار میدان میں آ گئے جس کے بعد جاوید میانداد نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاہد آفریدی کیخلاف قانونی کارروائی کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور انہیں معاف کر دیا۔  

نیا کپتان نہیں، مترجم چاہیے

ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن ہماری جیسی ٹیم کے لیے ہار ،ہار کھیل کا حصہ نہیں ہو سکتی۔ 50اوورز کا عالمی کپ ہو یا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، بھارت کے ساتھ میدان میں اترتے ہی ہم ہارنے کے لیے ہیں۔ دونوں فارمیٹس میں اب تک 11 مرتبہ ان ٹیموں کا مقابلہ ہوا ہے جس میں سے تمام میچ بھارت نے ہی جیتے ہیں۔ 2007ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاک بھارت پہلا معرکہ ٹائی ہوا لیکن بال آؤٹ پر بھارت نے ہی جیت لیا تھا۔ کولکتہ میں شکست کی مکمل ذمے داری کپتان شاہد آفریدی کو لینی چاہیے۔

ان کے بعد اگر کسی کا قصور ہے تو وہ کوچ وقار یونس کا ہے جنہوں نے پچ کو سمجھنے میں غلطی کی۔ پاکستان نے اننگز کا آغاز کیا تو بھارتی سپنر روی چندرن ایشون کے پہلے اوور سے ہی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ٹیم کی سلیکشن غلط ہو گئی ہے۔ عماد وسیم کی جگہ ایک فاسٹ بولر اضافی کھلایا گیا اور پھر مثبت نتیجے کی امید، ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ اس غلطی پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا۔ شاہد آفریدی کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے چلنے کا انحصار بیٹنگ وکٹ پر ہوتا ہے۔ ایڈن گارڈنز کے ٹرننگ ٹریک پر ان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ تیزی سے اسکور کر سکتے۔
بیٹنگ آرڈر میں محمد حفیظ تیسرے نمبر پر تھے جب کہ ان کی باری ساتویں نمبر پر آئی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جب کوئی کپتان اسپن کو کھیلنے والے اپنے بہترین بیٹسمین کو ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے بھجوائے گا تو ٹیم اسکور بورڈ پر فائٹنگ ٹوٹل کیسے ترتیب دے سکے گی۔ بولنگ میں بھی غلطیاں کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ محمد سمیع نے جب اپنے پہلے ہی اوور میں مسلسل دو گیندوں پر شِکھر دھون اور سریش رائنا کو آؤٹ کر دیا تو اگلے اوور میں اپنے بیسٹ بولر محمد عامر کو لانا چاہیے تھا مگر لالے نے اس دن کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔

عماد وسیم کو نکال کر ایک تو انھوں نے وننگ کمبی نیشن کو خراب کیا اور دوسرا ایک آپشن سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انڈیا میں جس طرح کی وکٹیں بنائی گئی ہیں ان پر لیفٹ آرم لیگ سپنر بہترین پرفارم کر رہے ہیں۔ کولکتہ کے ٹرننگ ٹریک پر عماد وسیم لالے کے لیے بہترین ہتھیار ثابت ہو سکتے تھے۔ شاہد آفریدی اپنے مخالف کپتان مہندرا سنگھ دھونی کی حکمت عملی دیکھ لیں، انھوں نے ایشون کو اشیش نہرا کے ساتھ اٹیک کرایا مگر پورے چار اوور ایشون کے بجائے رویندر جدیجہ سے کرائے جو لیفٹ آرم لیگ سپنر ہے۔ نیوزی لینڈ کے لیفٹ آرم لیگ سپنر مچل سینٹنر کی پرفارمنس بھی سب کے سامنے ہے یہ نوجوان اپنے پہلے دو میچوں میں6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کر چکا ہے۔

کولکتہ میں شکست کے بعد شائقین کی مایوسی اور تنقید بلا جواز نہیں ہے۔ ایشیا کپ میں بھارت اور بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکستوں نے شائقین کو بڑا دکھ دیا تھا مگر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف قومی کرکٹ ٹیم کی شاندار وکٹری اور نیوزی لینڈ کے ہاتھوںانڈیا کی ہار نے امید پیدا کر دی تھی کہ قومی ٹیم انڈیا کا بھرپور مقابلہ کرے گی۔ لیکن ہوا کیا؟ ٹیم کی سلیکشن سے پرفارمنس تک سب کچھ اتنا برا تھا کہ انڈیا نے یکطرفہ مقابلے میں ہمیں ہرا دیا۔ شاہد آفریدی کے بارے میں اس سے بہتر تبصرہ کیا ہو سکتا ہے کہ وہ جیسا کھلاڑی ہے ویسا ہی کپتان ہے۔ یعنی چل گیا تو چل گیا ورنہ۔۔۔۔۔
شاہد آفریدی کہتے ہیں ہم نے شکست کو پیچھے چھوڑ دیا، آئیں ہم بھی شکست کو پیچھے چھوڑ دیں اور آج نیوز ی لینڈ کے خلاف اہم میچ میں اپنی ٹیم کا ساتھ دیں۔ نیوزی لینڈ اس وقت گروپ 2 کی بہترین ٹیم نظر آرہی ہے۔ ان کی منیجمنٹ کا پروفیشنلزم ملاحظہ فرمائیں۔ پہلے دو میچوں میں وکٹ چونکہ اسپن بولروںکے لیے مدد گار تھی اس لیے انھوں نے اپنے دو بہترین فاسٹ بولرزٹم ساؤتھی اور ٹرینٹ بولٹ کو باہر بٹھا ئے رکھا۔ آج موہالی کی وکٹ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس پر گھاس ہے اور یہ فاسٹ بولروں کے لیے مدد گار ہو گی۔ اگر ایسا ہی ہے تویقین رکھیں یہ دونوں فاسٹ بولرنیوزی لینڈ کی پلینگ الیون میں شامل ہوں گے۔
شاہد آفریدی کو بھی چاہیے کہ وہ فاسٹ بولروں کی مدد گار وکٹ ہونے کی صورت میں چار فاسٹ بولروں کے ساتھ میدان میں اتریں۔ مجھے لگتا ہے کہ شاہد آفریدی میدان میں اترنے سے پہلے جو پلاننگ بناتے ہیں اس کے مطابق چلتے ہیں جب کہ کپتان وہی ہوتاہے جو صورتحال کے مطابق اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرے۔ عماد وسیم کو انڈیا کے خلاف میچ میں شامل نہ کرنے کی وجہ سے جو تنقید ہوتی ہے اسے جواز بنا کر اگر بلا ضرورت انھیں شامل کر کے ایک فاسٹ بولر نکالا گیا تو وہ نقصان دہ ہو گا۔ عماد کو شامل کرنا ہے تو شرجیل کو ریسٹ دے کر حفیظ اور احمد شہزاد سے اننگ اوپن کرالی جائے۔
ہمارے بیٹسمینوں کو بھی ویرات کوہلی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ کوہلی کو اگر آدھی انڈین ٹیم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ نیوزی لینڈ نے کوہلی کو جلدی آؤٹ کیا تو میچ بھی جیت لیا۔ کرس گیل کی بھی تقلید کرنے کی ضرورت ہے۔ گیل نے انگلینڈ کے خلاف جس طرح کھیل کر شاندار سنچری بنائی وہ مخالف ٹیموں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ کرس گیل تیز کھیل سکتے ہیں یہ سب جانتے ہیں مگر اس میچ میں انھوں نے تیز ضرور کھیلا مگر احتیاط کے ساتھ۔ انھوں نے بلا وجہ تیز کھیلنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ روک کر بھی کھیلے اس کے باوجود صرف 48گیندوں پر ناقابل شکست سنچری بنا ڈالی۔ شاہد آفریدی کو بیٹنگ کرتے وقت کرس گیل کی یہ اننگز ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے۔
اس موقع پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو ’’خراج تحسین‘‘ پیش نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی۔ چیئرمین شہریار خان نے فرمایا ہے کہ قوم اب کرکٹ ٹیم سے مزید امید نہ رکھے۔ عجیب بات ہے، بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیمیں ورلڈ کپ جیتنے کے حوالے سے کسی کھاتے میں نہیں ہیں مگر ان کی قوموں کو بھی اپنی ٹیموں سے امید ہو گی۔ پاکستان ٹیم عالمی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہونے کے باوجود اب بھی ورلڈ کپ جیتنے کی اہل ہے۔ انھوں نے ورلڈ کپ کے بعد شاہد آفریدی کو کپتانی سے فارغ کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں حضور اگر شاہد آفریدی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت لیا تو پھر ان کا فیصلہ کیا ہو گا؟ بزرگ چیئرمین کو اس موقع پر یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وقار یونس سے البتہ ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہماری کرکٹ پر رحم کریں۔
شاہد آفریدی اپنے آخری ٹورنامنٹ میں کامیابی حاصل نہیں کرتے تو یقیناً وہ کپتانی کے اہل نہیں رہیں گے۔ شہریار خان جب کہتے ہیں کہ اس کے بعد نیا کپتان تلاش کریں گے تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔ کپتان تلاش کرنے کی کیوں ضرورت ہے۔ سرفراز احمد ٹیم کے نائب کپتان ہیں اور میرے خیال میں انھیں ہی کپتان بنایا جانا چاہیے۔
سرفراز ایک فائٹرکرکٹر ہے اور پی ایس ایل میں اس کی بطور کپتان صلاحیتیں سب کے سامنے  ہیں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ سرفراز احمد،شاہد آفریدی سے بہترکپتان ثابت ہوں گے۔ پی سی بی کا یہ رویہ بھی عجیب ہے کہ کسی انگریزی بولنے والے کو ہی کپتان بنانا ہے۔ کیوں؟ پی سی بی نے جہاں اتنے لوگ بھاری معاوضے پر ٹیم کے ساتھ دورے پر بھیجنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں وہاں ایک مترجم کو نوکری کیوں نہیں دی جا سکتی۔ اس احساس کمتری سے ہم کب نکلیں گے کہ ہمیں انگریزی بولنی اور سمجھنی آئے گی تب ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔
ایاز خان