پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی

پاکستان نے سری لنکا کو ٹی ٹوئنٹی میچ میں شکست دے کر سیریز3 صفر سے جیت لی‘ اس میچ میں فتح و شکست سے زیادہ اہمیت یہ تھی کہ اس سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوئی ہے۔ سری لنکا کی ٹیم پر2009 میں لاہور میں دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا‘ اسی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم نے 8 برس بعد لاہور میں پاکستان کے ساتھ انٹرنیشنل میچ کھیل کر دوستی و محبت کا حق ادا کر دیا اور دنیا پر یہ بھی ثابت کر دیا کہ سری لنکا کے کھلاڑی بہادری اور دلیری میں بھی اپنی مثال آپ ہیں، ورنہ ایک ایسا ملک جس کے کھلاڑیوں پر دہشت گردوں کا حملہ ہو چکا ہو‘ اس کا دوبارہ آ کر کرکٹ میچ کھیلنا تقریباً نا ممکن سی بات ہے‘ بہرحال اس معاملے میں سری لنکا کی حکومت، وہاں کا کرکٹ بورڈ اور کھلاڑی مبارکباد کے حق دار ہیں۔ پاکستان تو ضرورت مند ہے‘ اس کی تو ضرورت ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو لہٰذا کریڈٹ ان کو جاتا ہے جو یہاں کرکٹ کھیلنے آئے۔

پاکستان کو دہشت گردوں نے جو نقصان پہنچایا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے‘ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کا مقصد بھی دنیا بھر میں یہ پیغام پہنچانا تھا کہ یہ ملک پرامن نہیں ہے‘ اب پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے اشارے مل رہے ہیں۔ زمبابوے کی ٹیم بھی پاکستان میں میچ کھیل چکی ہے‘ حقیقی معنوں میں پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ اس وقت بحال ہو گی جب انگلینڈ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور ساؤتھ افریقہ کی کرکٹ ٹیمیں یہاں آ کر میچ کھیلیں گی۔ اب تو سری لنکا نے صرف ایک میچ کھیلا ہے اور وہ بھی 20 اوورز کا محدود میچ ہے‘ کرکٹ کو اس وقت بحال تصور کیا جائے گا جب یہاں ٹیسٹ میچوں اور ون ڈے میچوں کی سیریز کھیلی جائیں گی۔ پورے ملک کے اسٹیڈیم آباد ہو جائیں گے۔

یہ منزل دور ضرور ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہاں تک پہنچا نہیں جا سکتا۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو اس حوالے سے حکمت عملی تیار رکھنی چاہیے۔ بلاشبہ سری لنکا اور پاکستان کے درمیان ٹی ٹوئنٹی میچ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ لاہور میں اس سے پہلے بھی کئی میچ ہو چکے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ میچ غیرمعمولی سیکیورٹی کے حصار میں ہوئے ہیں‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ ملک میں دہشت گرد تنظیموں کا وجود موجود ہے۔ جب تک دہشت گرد تنظیموں کا وجود برقرار رہے گا‘ پاکستان خطرات سے دوچار رہے گا۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے‘ اس کے لیے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

شارٹ ٹرم حکمت عملی کے تحت آپریشن ردالفساد جاری ہے اور نیشنل ایکشن پلان پر بھی کام ہو رہا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں‘ کئی دہشت گردوں کو پھانسی بھی دی گئی ہے‘ قبائلی علاقوں اور سوات سے دہشت گردوں کا اقتدار ختم ہو چکا ہے اور وہاں امن بحال ہو گیا ہے‘ کراچی میں بھی رینجرز کے آپریشن کے مثبت نتائج نکلے ہیں‘ اس کے پورے ملک پر اثرات مرتب ہوئے ہیں‘ آج پاکستان میں جو کرکٹ بحال ہوئی ہے‘ یہ اسی کا نتیجہ ہے ۔ یوں شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیاں جاری رکھی جائیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں انگلینڈ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ ویسٹ انڈیز‘ جنوبی افریقہ اور بھارت جیسی کرکٹ ٹیمیں ٹیسٹ میچ بھی کھیلیں گی ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کا میلہ بھی سجتا رہے گا‘ غیر ملکی سیاح بھی آنا شروع ہو جائیں گے‘کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی اور معیشت مستحکم ہو گی، یہی اصل پاکستان ہو گا۔

 اداریہ ایکسپریس نیوز

Pakistani cricketers given fitness training the military way at PMA Kakul

Batsman Fawad Alam and opener Shaan Masood are the fittest players in the training camp underway at Pakistan Military Academy Kakul, ahead of the teams tour to England. More than 30 cricketers are attending the camp, however, a dozen of them have been unable to meet the fitness criteria required to pass the tests, a Pakistan Cricket Board (PCB) official said. “Despite the age gap, captain Misbah-ul- Haq and batsman Younis Khan are among the toppers in the fitness tests,” the official added. He said that the players with most below par performances, who were unable to reach the required fitness level, include Zulfiqar Babar and Sohaib Maqsood.
“The selectors and PCB are very concerned about the fitness tests and top priority will be given to players who are in good shape,” he said. Pakistan’s disastrous show in the Asia Cup and World Twenty20 was due to bad fitness level of national players, the PCB official said, adding “this issue was also mentioned by former coach Waqar Younis and team manager Intikhab Alam”. Selectors and PCB are very concerned about the fitness tests, says official. —PCB facebook page

نیا کپتان نہیں، مترجم چاہیے

ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن ہماری جیسی ٹیم کے لیے ہار ،ہار کھیل کا حصہ نہیں ہو سکتی۔ 50اوورز کا عالمی کپ ہو یا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، بھارت کے ساتھ میدان میں اترتے ہی ہم ہارنے کے لیے ہیں۔ دونوں فارمیٹس میں اب تک 11 مرتبہ ان ٹیموں کا مقابلہ ہوا ہے جس میں سے تمام میچ بھارت نے ہی جیتے ہیں۔ 2007ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاک بھارت پہلا معرکہ ٹائی ہوا لیکن بال آؤٹ پر بھارت نے ہی جیت لیا تھا۔ کولکتہ میں شکست کی مکمل ذمے داری کپتان شاہد آفریدی کو لینی چاہیے۔

ان کے بعد اگر کسی کا قصور ہے تو وہ کوچ وقار یونس کا ہے جنہوں نے پچ کو سمجھنے میں غلطی کی۔ پاکستان نے اننگز کا آغاز کیا تو بھارتی سپنر روی چندرن ایشون کے پہلے اوور سے ہی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ٹیم کی سلیکشن غلط ہو گئی ہے۔ عماد وسیم کی جگہ ایک فاسٹ بولر اضافی کھلایا گیا اور پھر مثبت نتیجے کی امید، ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ اس غلطی پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا۔ شاہد آفریدی کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے چلنے کا انحصار بیٹنگ وکٹ پر ہوتا ہے۔ ایڈن گارڈنز کے ٹرننگ ٹریک پر ان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ تیزی سے اسکور کر سکتے۔
بیٹنگ آرڈر میں محمد حفیظ تیسرے نمبر پر تھے جب کہ ان کی باری ساتویں نمبر پر آئی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جب کوئی کپتان اسپن کو کھیلنے والے اپنے بہترین بیٹسمین کو ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے بھجوائے گا تو ٹیم اسکور بورڈ پر فائٹنگ ٹوٹل کیسے ترتیب دے سکے گی۔ بولنگ میں بھی غلطیاں کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ محمد سمیع نے جب اپنے پہلے ہی اوور میں مسلسل دو گیندوں پر شِکھر دھون اور سریش رائنا کو آؤٹ کر دیا تو اگلے اوور میں اپنے بیسٹ بولر محمد عامر کو لانا چاہیے تھا مگر لالے نے اس دن کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔

عماد وسیم کو نکال کر ایک تو انھوں نے وننگ کمبی نیشن کو خراب کیا اور دوسرا ایک آپشن سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انڈیا میں جس طرح کی وکٹیں بنائی گئی ہیں ان پر لیفٹ آرم لیگ سپنر بہترین پرفارم کر رہے ہیں۔ کولکتہ کے ٹرننگ ٹریک پر عماد وسیم لالے کے لیے بہترین ہتھیار ثابت ہو سکتے تھے۔ شاہد آفریدی اپنے مخالف کپتان مہندرا سنگھ دھونی کی حکمت عملی دیکھ لیں، انھوں نے ایشون کو اشیش نہرا کے ساتھ اٹیک کرایا مگر پورے چار اوور ایشون کے بجائے رویندر جدیجہ سے کرائے جو لیفٹ آرم لیگ سپنر ہے۔ نیوزی لینڈ کے لیفٹ آرم لیگ سپنر مچل سینٹنر کی پرفارمنس بھی سب کے سامنے ہے یہ نوجوان اپنے پہلے دو میچوں میں6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کر چکا ہے۔

کولکتہ میں شکست کے بعد شائقین کی مایوسی اور تنقید بلا جواز نہیں ہے۔ ایشیا کپ میں بھارت اور بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکستوں نے شائقین کو بڑا دکھ دیا تھا مگر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف قومی کرکٹ ٹیم کی شاندار وکٹری اور نیوزی لینڈ کے ہاتھوںانڈیا کی ہار نے امید پیدا کر دی تھی کہ قومی ٹیم انڈیا کا بھرپور مقابلہ کرے گی۔ لیکن ہوا کیا؟ ٹیم کی سلیکشن سے پرفارمنس تک سب کچھ اتنا برا تھا کہ انڈیا نے یکطرفہ مقابلے میں ہمیں ہرا دیا۔ شاہد آفریدی کے بارے میں اس سے بہتر تبصرہ کیا ہو سکتا ہے کہ وہ جیسا کھلاڑی ہے ویسا ہی کپتان ہے۔ یعنی چل گیا تو چل گیا ورنہ۔۔۔۔۔
شاہد آفریدی کہتے ہیں ہم نے شکست کو پیچھے چھوڑ دیا، آئیں ہم بھی شکست کو پیچھے چھوڑ دیں اور آج نیوز ی لینڈ کے خلاف اہم میچ میں اپنی ٹیم کا ساتھ دیں۔ نیوزی لینڈ اس وقت گروپ 2 کی بہترین ٹیم نظر آرہی ہے۔ ان کی منیجمنٹ کا پروفیشنلزم ملاحظہ فرمائیں۔ پہلے دو میچوں میں وکٹ چونکہ اسپن بولروںکے لیے مدد گار تھی اس لیے انھوں نے اپنے دو بہترین فاسٹ بولرزٹم ساؤتھی اور ٹرینٹ بولٹ کو باہر بٹھا ئے رکھا۔ آج موہالی کی وکٹ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس پر گھاس ہے اور یہ فاسٹ بولروں کے لیے مدد گار ہو گی۔ اگر ایسا ہی ہے تویقین رکھیں یہ دونوں فاسٹ بولرنیوزی لینڈ کی پلینگ الیون میں شامل ہوں گے۔
شاہد آفریدی کو بھی چاہیے کہ وہ فاسٹ بولروں کی مدد گار وکٹ ہونے کی صورت میں چار فاسٹ بولروں کے ساتھ میدان میں اتریں۔ مجھے لگتا ہے کہ شاہد آفریدی میدان میں اترنے سے پہلے جو پلاننگ بناتے ہیں اس کے مطابق چلتے ہیں جب کہ کپتان وہی ہوتاہے جو صورتحال کے مطابق اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرے۔ عماد وسیم کو انڈیا کے خلاف میچ میں شامل نہ کرنے کی وجہ سے جو تنقید ہوتی ہے اسے جواز بنا کر اگر بلا ضرورت انھیں شامل کر کے ایک فاسٹ بولر نکالا گیا تو وہ نقصان دہ ہو گا۔ عماد کو شامل کرنا ہے تو شرجیل کو ریسٹ دے کر حفیظ اور احمد شہزاد سے اننگ اوپن کرالی جائے۔
ہمارے بیٹسمینوں کو بھی ویرات کوہلی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ کوہلی کو اگر آدھی انڈین ٹیم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ نیوزی لینڈ نے کوہلی کو جلدی آؤٹ کیا تو میچ بھی جیت لیا۔ کرس گیل کی بھی تقلید کرنے کی ضرورت ہے۔ گیل نے انگلینڈ کے خلاف جس طرح کھیل کر شاندار سنچری بنائی وہ مخالف ٹیموں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ کرس گیل تیز کھیل سکتے ہیں یہ سب جانتے ہیں مگر اس میچ میں انھوں نے تیز ضرور کھیلا مگر احتیاط کے ساتھ۔ انھوں نے بلا وجہ تیز کھیلنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ روک کر بھی کھیلے اس کے باوجود صرف 48گیندوں پر ناقابل شکست سنچری بنا ڈالی۔ شاہد آفریدی کو بیٹنگ کرتے وقت کرس گیل کی یہ اننگز ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے۔
اس موقع پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو ’’خراج تحسین‘‘ پیش نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی۔ چیئرمین شہریار خان نے فرمایا ہے کہ قوم اب کرکٹ ٹیم سے مزید امید نہ رکھے۔ عجیب بات ہے، بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیمیں ورلڈ کپ جیتنے کے حوالے سے کسی کھاتے میں نہیں ہیں مگر ان کی قوموں کو بھی اپنی ٹیموں سے امید ہو گی۔ پاکستان ٹیم عالمی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہونے کے باوجود اب بھی ورلڈ کپ جیتنے کی اہل ہے۔ انھوں نے ورلڈ کپ کے بعد شاہد آفریدی کو کپتانی سے فارغ کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں حضور اگر شاہد آفریدی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت لیا تو پھر ان کا فیصلہ کیا ہو گا؟ بزرگ چیئرمین کو اس موقع پر یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وقار یونس سے البتہ ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہماری کرکٹ پر رحم کریں۔
شاہد آفریدی اپنے آخری ٹورنامنٹ میں کامیابی حاصل نہیں کرتے تو یقیناً وہ کپتانی کے اہل نہیں رہیں گے۔ شہریار خان جب کہتے ہیں کہ اس کے بعد نیا کپتان تلاش کریں گے تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔ کپتان تلاش کرنے کی کیوں ضرورت ہے۔ سرفراز احمد ٹیم کے نائب کپتان ہیں اور میرے خیال میں انھیں ہی کپتان بنایا جانا چاہیے۔
سرفراز ایک فائٹرکرکٹر ہے اور پی ایس ایل میں اس کی بطور کپتان صلاحیتیں سب کے سامنے  ہیں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ سرفراز احمد،شاہد آفریدی سے بہترکپتان ثابت ہوں گے۔ پی سی بی کا یہ رویہ بھی عجیب ہے کہ کسی انگریزی بولنے والے کو ہی کپتان بنانا ہے۔ کیوں؟ پی سی بی نے جہاں اتنے لوگ بھاری معاوضے پر ٹیم کے ساتھ دورے پر بھیجنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں وہاں ایک مترجم کو نوکری کیوں نہیں دی جا سکتی۔ اس احساس کمتری سے ہم کب نکلیں گے کہ ہمیں انگریزی بولنی اور سمجھنی آئے گی تب ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔
ایاز خان  

’پاکستانی ٹیم ناقابل اعتبار لیکن مہارت سے ُپر ہے‘

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مقابل آنے والی ٹیمیں یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ اس
پر لگا ہوا ’ ناقابل اعتبار ٹیم‘ کا لیبل ان کے لیے خطرہ بھی بن جاتا ہے۔

نیوزی لینڈ کے کوچ مائک ہیسن کو بھی یہ معلوم ہے اور وہ منگل کے روز ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستانی ٹیم کو کسی طور پر نظرانداز کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
مائک ہیسن کہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم ناقابل اعتبار مگر مہارت سے بھری ہوئی ہے اور اس کی سب سے بڑی خوبی اس کا لیفٹ آرم پیس اٹیک ہے جس میں بہت ورائٹی موجود ہے اور اس کا مقابلہ کرنا ایک چیلنج ہے۔
ان کے مطابق محمد عرفان اس پیس اٹیک میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
مائک ہیسن کہتے ہیں کہ ’نیوزی لینڈ نے حالیہ دنوں میں پاکستان سے میچز کھیل رکھے ہیں لہذا ہمیں ان کے بارے میں معلومات ہیں۔ پاکستان کی بولنگ کے برعکس اس کی بیٹنگ ہمارے لیے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہے۔‘
ہیسن کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم میں بائیں ہاتھ کے تیز بالرز اہمیت کے حامل ہیں
نیوزی لینڈ کی ٹیم نے اس ورلڈ ٹوئنٹی میں اپنے دونوں میچوں میں وکٹ کو سمجھ کر صحیح کومبینیشن کے ساتھ کامیابیاں حاصل کی ہیں جس پر سب مائک ہیسن کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔

مائک ہیسن کہتے ہیں ان کی ٹیم نے حریف ٹیموں کی ویڈیوز دیکھ رکھی ہیں، ’انھیں ہرگراؤنڈ کا ریکارڈ پتہ ہے لیکن اصل اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ آپ وکٹ دیکھ کر اس کا صحیح اندازہ لگائیں۔‘

نیوزی لینڈ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کے کئی کھلاڑی آئی پی ایل کھیلتے رہے ہیں لہذا تمام معلومات اکٹھی کرکے کنڈیشنز کے مطابق ٹیم کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ناگپور کے گراؤنڈزمین نے ان سے کہا تھا کہ وکٹ سخت اور تیز ہے اور اس پر باؤنس ہوگا لیکن ہم نے وہی کیا جو ہمیں سمجھ میں آیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف جیت کے لیے ان کی ٹیم کو سخت محنت کرنی ہوگی
مائک ہیسن کا کہنا ہے کہ موہالی میں کنڈیشنز ناگپور اور دھرم شالہ سے مختلف ہیں اور یہ نیوزی لینڈ سے بڑی حد تک ملتی جلتی ہیں لیکن ہمیں پتہ ہے کہ پچھلے دو میچوں کے مقابلے اس میچ میں ہمیں ایک اچھے بولنگ اٹیک کا سامنا ہوگا۔
مائیک ہیسن کو اس بات پر کوئی گلہ نہیں کہ ان کی ٹیم کو فیورٹ نہیں سمجھا رہا تھا بلکہ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ان کی ٹیم رڈار سے بچ نکلتے ہوئے آگے بڑھی ہے۔ دو میچز ضرور جیتے ہیں لیکن یہ اگلے میچ میں بھی کامیابی کی ضمانت نہیں اور اس کےلیے ان کی ٹیم کو سخت محنت کرنی ہوگی۔

کرکٹ کیلئے صرف دعائیں کب تک؟

’’فیدا کی(کیا فائدہ)؟!‘‘ والی نظم آپ نے بھی سن رکھی ہوگی۔ یک سطری مفہوم
اس عوامی نظم کا یہ ہے کہ دل میں آئی بات کو برملا کہہ دوں تو اس کے بعد جسم پر لگے زخموں کو بس سہلاتا ہی رہوں گا۔ اس کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔ لہذا ’’فیدا کی؟‘‘

یہ الگ بات ہے کہ اپنی بے بسی کا واضح اعتراف کرتے ہوئے شاعر نے بڑی مہارت سے یہ مصرعہ بھی لکھ ہی ڈالا کہ ’’پلس نوں جو میں آکھاں…‘‘سچ بول کر بھی سچ بولنے کی ہمت نہ رکھنے کا ڈھونگ مگر کوئی صاحب کمال شاعر ہی رچاسکتا ہے۔ کم از کم مجھ ایسے ذات کے رپورٹر کو یہ ہنر ہرگز نصیب نہیں ہوا۔
جنرل مشرف کسی ایئرایمبولینس میں نہیں معمول کی ایک پرواز کے ذریعے کراچی سے دبئی پہنچ گئے ہیں۔

 وہاں پہنچتے ہی انہوں نے احباب کو اپنے شاندار دکھتے ڈرائنگ روم میں صلاح ومشورے کے لئے طلب کیا۔ پاکستان میں قیام کے دوران ان کی آخری تصویر جو دیکھی اس میں سابق صدر سانس لینے کے لئے آکسیجن کے محتاج نظر آرہے تھے۔ دوبئی پہنچنے تک ان کے پھیپھڑوں میں اتنی آکسیجن جمع ہوگئی تھی کہ ضرورت سے زیادہ جمع ہوئی مقدار کو خرچ کرنے کے لئے سگار کو سلگانا پڑا۔ربّ کریم انہیں اس شان کے ساتھ دشمنوں کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑکانے کو زندہ وسلامت رکھے۔

ان کی روانگی کے بعد شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ٹی وی سکرینوں پر جرأت وبہادری کی علامت بنے اینکرخواتین وحضرات اور میری طرح اخباری کالموں کے ذریعے بقراطی فرماتے ہوئے لوگوں کی سیاپا فروشی سے تاثر کچھ ایسا ملا کہ قوم ہماری آئین اور قانون کی بالادستی وغیرہ کے ضمن میں بہت فکر مند ہے۔ اسے دُکھ ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان میں قانون ابھی تک سب کو برابر نہیں سمجھتا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قصہ برقرار ہے۔

آئین اور قانون کی محبت میں دیوانہ ہوکر سینہ کوبی کرتے خواتین وحضرات کی حالتِ زار دیکھ کر ’’یہ دل -یہ پاگل دل میرا‘‘ کئی بار مچلا کہ قلم اٹھائوں اور جو کچھ دل میں ہے سب لکھ ڈالوں۔ شاعر کا مگر شکریہ۔ ’’فیدا کی؟‘‘ دماغ میں گونجنا شروع ہوگیا۔ پاسبان عقل شاید دل کی نگہبانی سے بالآخر تھک ہی جاتا مگر کام آگیا وہ میچ جو ہفتے کی شام کولکتہ کے ایڈن گارڈن میں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین ہوا۔
کئی بار اعتراف اس کالم میں کرچکا ہوں کہ مجھے کرکٹ کے معاملات کا ککھ پتہ نہیں۔ بچپن میں ریڈیو پر ’’تھینک یو عمر‘‘ والی کمنٹری بے تحاشہ سنی ہے۔ اسے سنتے ہوئے اپنے محلے کے ایک تندور کے باہر دیوار میں سیمنٹ اور سیاہ رنگ سے بنائے ’’بورڈ‘‘ پر تازہ ترین احوال بھی رنگین چاکوں کی مدد سے لکھتا رہا اور پھر غمِ روزگار نے دوسرے دھندوں میں مشغول کردیا۔
ہفتے کی شام مگر پاک-بھارت ٹاکرے سے مفر ممکن ہی نہ تھا۔ ٹی وی کو آف رکھ کر کمپیوٹر کھولوں تب بھی ہر App پر موجود پایا قندیل بلوچ کو ۔غیرت کے نام پر کبھی کبھار قتل کردینے کی عادت میں مبتلا میرے معاشرے میں اس خاتون نے قومی ٹیم اور خاص کر اس کے کپتان کے دل میں فتح کی جوت جگانے کے لئے جو کچھ کہا اسے لاہور کی گلیوں والی ’’آخیر‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے ۔
میچ شروع ہوا تو ٹی وی کے ساتھ ٹویٹر اکائونٹ بھی کھول لیا۔ انٹرنیٹ نے ہر شعبے کے ’’ماہرین‘‘ بھی پیدا کردئیے ہیں۔ انہیں ہر موقعہ کی غزل منہ زبانی یاد ہوتی ہے۔ میچ کے دوران ان’’ماہرین‘‘ کی تبصرہ آرائی سے مسلسل رجوع کرتا رہا۔ ایسا کرتے ہوئے اپنے اس رویے کی بابت بہت تسکین محسوس ہوئی جس کی وجہ سے کبھی کبھار اپنی ’’وکھری ٹائپ‘‘ سوچ پر ڈٹ جانے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اشتہاری کمپنیوں کو مگر پھر بھی سلام۔ انہیں رونق لگانے کا ہنرخوب آتا ہے۔
اپنی اصل میں کرکٹ شاید کبھی دُنیا کا وہ واحد کھیل تھا جہاں جیت ہی حتمی ہدف نہیں ہوا کرتی تھی۔ پانچ دنوں تک پھیلا ایک مقابلہ جو اکثر Draw پر ختم ہوتا۔ اپنی انتہا تک پہنچ کر سرمایہ دارانہ نظام نے مگر اس کھیل کو بھی ’’تخت یا تختہ‘‘ کی صورت دے ڈالی۔ آسٹریلیا کے کیری پیکر نے اس کھیل کو اناپرستی کے جنون میں مبتلا ذہنوں کی تسکین کا ذریعہ بنانے کا چلن ڈالا۔ بات One Dayسے شروع ہوکر T-20تک محدود ہوگئی۔ رونق لگ گئی۔
ایک زمانہ تھا کہ جب جیت کے جنون میں مبتلا ہوئے کسی فرد کی حرکات کو This is not Cricket کہہ کر حقارت سے ٹھکرادیا جاتا تھا۔ اب اس کھیل کو لیکن ایک حوالے سے انسان نہیں ’’ٹائیگر‘‘ یا ’’شاہین‘‘ کھیلتے ہیں۔ Draw کی کوئی گنجائش باقی ہی نہیں رہ گئی۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہوتا ہے اور اس مقابلے سے نبردآزما ہونے کے لئے درکار ہوتے ہیں فولادی اعصاب۔ اعصاب کو فولاد بنانے کے لئے ضرورت ہے مگر کڑے ضابطوں اور تنظیم سازی کی ریاضتوں کی۔جیت کی لگن میں ریاضت سے زیادہ ہم البتہ قوم کی دُعائوں کے طلب گار ہوتے ہیں۔ قوم ہماری دُعائیں بھی بہت خلوص اور دل وجان سے دیتی ہے۔ دُعا مگر دوا ور تدبیر کا متبادل ہو ہی نہیں سکتی۔
ایڈن گارڈن کا ماحول ہمارے اعصاب پر انگریزی والے Word “Go”کے ساتھ ہی حاوی ہوچکا تھا ۔ یہ پیغام دیا مجھے شفقت علی خان نے۔ کلاسیکی حوالے سے وہ موسیقی کے ایک بہت ہی ہنر مند گھرانے کا نمائندہ ہے۔ ’’ترانہ‘‘ اس گھرانے میں خیال کے آخری لمحات میں صرف جگل بندی اور تان پلٹے ہوتے ہیں۔ ’’قومی ترانہ‘‘ رجز ہے جسے بنیادی طورپر گایا نہیں ادا (Render)کیا جاتا ہے۔ ماتھے پر پسینے کے قطروں کے ساتھ گھبرائے ہوئے شفقت علی خان بے چارے نے مگر اسے ’’گانے‘‘ کی کوشش کی اور کم از کم دو مقامات پر اس سے چوک بھی ہوگئی۔ اس کے بعد بھارتی ترانہ پڑھنے کو کھڑا ہوا ایک منجھا ہوا کلاکار ۔Mega Eventsکو سنبھالنے کے حوالے سے ہمارے اور ان کے درمیان فرق واضح ہوگیا۔
میچ شروع ہوا تو ہم نے Pitchکو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا اور گھبرائے ہوئے اعصاب کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہوسکتی تھی کہ شاہد آفریدی پہلی وکٹ گرنے کے بعد خود میدان میں اُتر آئے۔ اپنی ٹیم کی روایتی ترتیب پر اعتبار نہ کیا۔اس کے مقابلے میں بھارتی کپتان نے آخری اوور بھی اپنے ایک کمزور دکھتے بائولر سے کرواکر خود اعتمادی کا پیغام دیا۔ تھکے ہارے اعصاب کے اس ماحول میں سمیع کو جس نے ایک کے بعد دوسری کلی اُڑائی مناسب داد بھی نہ مل پائی۔
ہم کمزور اعصاب کے ساتھ میدان میں اُترے۔ خود پر اعتماد ہوتا تو شاہد آفریدی اپنی پوری ٹیم کو Tipsلینے کے لئے عمران خان کے روبرو یوں پیش نہ کرتا جیسے پیروں سے تعویز لئے جاتے ہیں۔ کرکٹ اپنی اصل میں جو ہوا کرتی تھی عرصہ ہوا اسے ہم بھلا چکے۔ کوّا مگر ہنس کی چال بھی صحیح طریقے سے نہیں چل پارہا ہے۔ کرکٹ کے نئے چلن کے مطابق ڈھلنے کے لئے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ اس کی طرف مناسب توجہ ہی نہیں۔ قوم کو آخر کب تک دُعائیں دینے میں ہی مصروف رکھیں ؟!
نصرت جاوید

Pakistan Super League (PSL) Teams/Venue/Schedule

The Pakistan Super League (PSL)  is a professional Twenty20 cricket league in Pakistan composed of 5 member clubs. Headquartered in Lahore, the PSL is widely considered to become the premier professional cricket league in Pakistan. The PSL Cup will be awarded annually to the league playoff champion at the end of each season.

After several years of planning, the Pakistan Super League will officially begin on February 4, 2016, in the United Arab Emirates, after the suspension of operations of its predecessor organization, the Haier T20 League, which had been founded in 2004. The PSL immediately took the place as one of the leagues that contested for the annual T20 cup. The PSL will begin with five teams (all based in Pakistan) and, through a series of expansions over the next several seasons, will expand to a 10 team league with two conferences. The league draws many highly skilled players from all over the world and currently has players from approximately 11 different countries. Pakistanis have historically constituted the majority of the players in the Haier T20 League – in the PSL there will be an increasing percentage of Asian and European players. The early commercial rights of franchises were sold out for Rs94 Crores ($93 million) for the span of 10 years in December 2015.
History 
The history of the Pakistan Super League begins with the end of its predecessor league, the Haier T20 Cup (known previously as the ABN-AMRO Twenty-20 Cup, RBS Twenty-20 Cup and Faysal Bank Twenty-20 Cup). The Haier T20 Cup began in the 2004–05 season and quickly established itself as the premier professional Twenty20 cricket league in Pakistan with 14 member clubs, of which are 13 were located in Pakistan and 1 in Afghanistan. Pakistan was one of the first countries to start a domestic T20 competition.[2] The T20 Cup was awarded annually to the league playoff champion at the end of each season. Of the 9 played seasons, the Sialkot Stallions were the most dominant team winning the championship a total of 6 times. The 2015–16 season was the final season of the Haier T20 Cup in which the Peshawar Panthers defeated the Karachi Dolphins by 7 wickets at Rawalpindi.

Foundation 

In September 2015, the PCB officially announced the launch of the Pakistan Super League, with its inaugural season to be played in 2016. Former captains Wasim Akram and Rameez Raja have signed formal contracts to be brand ambassadors of the PSL for the next three years. In its inaugural season, the PSL will only have five teams, with plans for an expansion to a ten league team over the next 5 seasons. The league will use the draft system for player recruitment, similar to that of the National Football League in the United States, as opposed to the “auction” used in other T20 leagues. The PSL’s official logo and anthem of the first season were launched on 20 September 2015 in a launching ceremony in Lahore. The anthem, Ab Khel Ke Dikha, was sung by Ali Zafar and the PSL logo was revealed by 3Di. The ceremony was attended by current and retired cricketers, as well as showbiz celebrities.
Inaugural season 
The inaugural 2016 PSL season will commence on 4 February 2016 and end on 23 February 2016. The five teams for the first season will represent five major cities of Pakistan – Islamabad, Karachi, Lahore, Quetta and Peshawar.
League organization 
Ambassadors 
Following were announced as Ambassadors for PSL
Pakistan Rameez Raja
Pakistan Wasim Akram

Franchises 
Pakistan Super League is located in Pakistan KingsKings QalandarsQalandars GladiatorsGladiators ZalmiZalmi UnitedUnited

Location of PSL clubs
According to Initial reports, around 20 parties shown interest in buying franchises.  Shoaib Akhtar the former Pakistan fast bowler has expressed his interest in owning a franchise. Haier, represented by Javed Afridi, the CEO in Pakistan, has also shown interest in owning a franchise. On October 18, 2015 PCB offered tenders for bidding the franchises. According to statement by PCB, the bid winners will be granted right of each franchise for a term of 10 years.  The interested parties had to apply for bidding before November 15.  According to a press release, the interested bidding parties include ARY Media Group, Omar Associates, Arif Habib Group, Haier, Mobilink as well as two foreign groups including Venture Capital of UAE and Qatar Lubricants Company (QALCO). 
All the 5 franchises for the PSL were sold on December 3, 2015. Several companies bought the bidding documents, but only seven presented formal proposals, which also included companies from the Middle East. 
The early commercial rights of franchises were sold out for US$93 million for the span of 10 years in December 2015.The PSL’s title sponsorship goes to Pakistan’s Primary bank Habib Bank Limited.Karachi became the most expensive team with the ARY Group shelling out $26 million to gain ownership.
ARY Group purchased Karachi Kings for $26 million
Qatar Oil purchased Lahore Qalandars for $25 million
Leonine Global Sports purchased Islamabad United for $15 million
Haier purchased Peshawar Zalmi for $16 million
Omar Associates purchased Quetta Gladiators for $11 million