Pakistan’s hockey legend Mansoor Ahmed

Mansoor Ahmed (7 January 1968 – 12 May 2018) was a Pakistani field hockey player. Ahmed played (1986–2000) as a Goalkeeper and Captain for Pakistan national hockey team. He played 338 International matches and won three Olympics golds and won bronze in the 1992 Olympic. Ahmed played three consecutive World Cups and won 1994 World Cup Hockey Championship (World Cup). Also hold Silver medal in 1990 world Cup Hockey Championship. He played ten Champions Trophies and gold medal in 1994. He played three Asian Games and won gold in 1990 Beijing, China. In his career, he earned 12 gold, 12 silver and 8 bronze medals in international hockey tournaments. He was declared All Asian Stars Hockey Team member in 1996 and also declared World Eleven Hockey team member in 1994. His glories made him rise above the sky by becoming the World’s best goalkeeper and declared by F.I.H in 1994. Mansoor stood 4 times as the best goalkeeper of the tournament in his lifetime career. He was also the flag carrier of the Pakistani Contingent in 1996 Atlanta Olympics in Atlanta, US.
In his outstanding performance in the field of hockey Government of Pakistan awarded him the President Award in 1988. He was also awarded Pride of Performance, (Highest Civil Award) in 1994. Mansoor was involved in hockey as a coach. He was the National hockey coach of Pakistan junior hockey team in 2000 and was appointed as specialist goal keeper coach of Bangladesh national hockey team in 2014. He also appointed director of Pakistan hockey federation hockey Academies in 2010.He is holding the degree of High Performance Coaching Diploma.[citation needed] Besides a player, Mansoor Ahmad was a social activist and worked as an ambassador with different organizations like “Right to Play” and “Athlete Ambassador”. He was also announced as ambassador for No Smoking Campaign by Government of Pakistan. He has the honor to be announced as speaker for FIFA World Cup 2022, Qatar. He was also invited as a guest for Special Olympics, Los Angeles, US in 2015.
On 22 April 2018 Mansoor Ahmed revealed that he needs a heart replacement and seeking Government of India for medical visa. “We were rivals on the field. I have many memories of playing against your teams, fierce contests. But at night, we’d sit and eat together, go out shopping together”, he said. “Somewhere, deep down, I am certain that feeling still remains on both sides. Inshallah, India will not disappoint when I seek your country’s help,” said Ahmed.He also added by saying “We’ve sent them my reports and India is the better option given their low costs and high success rates,” Ahmed said. “I am looking to India for help, but please remember, I’m not seeking any financial aid or asking for money. India has a robust and efficient Indian medical system and I’m only appealing for them to grant me the visa when the need arises.” Mansoor Ahmed passed away on 12 May, 2018 in Karachi, Pakistan.

پاکستان ہاکی : آخری گولڈ میڈ لسٹ کپتان کی یادیں

11 اگست سنہ 1984 پاکستانی ہاکی کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔ اس روز پاکستانی ہاکی ٹیم نے لاس اینجلس اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔ یہ شاندار کامیابی حاصل کرنے والی ٹیم کے کپتان منظور حسین تھے جنھیں ہاکی کی دنیا میں منظور جونیئر کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ لاس اینجلس اولمپکس کی جیت کو 32 سال ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود منظور جونیئر کے ذہن میں یہ ایسے تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو۔ مجھے اپنے تمام کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کا اچھی طرح اندازہ تھا اور میں یہی سوچ رہا تھا کہ اگر اس ٹیم کا صرف ایک کھلاڑی اپنی صلاحیت کےمطابق کھیل گیا تو یہ ٹیم بہت آگے جائے گی لیکن اس ٹیم کے ہر ایک کھلاڑی نے لاس اینجلس میں غیر معمولی ہاکی کھیلی جس پر میں بجا طور پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ ایسی کارکردگی میں نے اپنی زندگی میں نہ اس سے پہلے دیکھی تھی نہ بعد میں۔ منظور جونیئر نے بی بی سی اردو سروس کو دیے گئے انٹرویو میں لاس اینجلس اولمپکس کی جیت کو اپنے کریئر کا سب سے یادگار لمحہ قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھیں پورا یقین تھا کہ یہ ٹیم اولمپک گولڈ میڈل جیت سکتی ہے۔ منظور جونیئر کو ٹیم کی روانگی سے قبل ایوان صدر میں دیا گیا استقبالیہ بھی اچھی طرح یاد ہے جس میں اس وقت کے صدر ضیا الحق نے جس طرح ہر کھلاڑی کی تعریف کی تھی وہ ان کے لیے حیران کن تھی۔
صدر ضیا الحق ہاکی پروفیشنل نہیں تھے لیکن انھوں نے کہا کہ اگر میں اس ٹیم کے ہر کھلاڑی کی صلاحیتیں بیان کروں تو وہ ایک ڈکشنری کی طرح ہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے ہر کھلاڑی کی فرداً فرداً خوبیاں بیان کرنی شروع کردیں۔ آپ خود اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ٹیم کے بارے میں صدر مملکت کا تجزیہ اتنا زبردست تھا تو پھر ہاکی فیڈریشن کے ارباب اختیار ایئر مارشل نور خان اور بریگیڈئر عاطف اس ٹیم کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے. لاس اینجلس اولمپکس میں پاکستانی ٹیم نے اپنے پول میں کینیا اور کینیڈا کو شکست دی تھی جب کہ ہالینڈ، برطانیہ اور نیوزی لینڈ سے اس کے میچ برابر رہے تھے۔
ہالینڈ کو سیمی فائنل میں بہتر گول اوسط کی بنیاد پر رسائی کے لیے ضروری تھا کہ وہ کینیا کو چھ گول سے ہرائے لیکن ہالینڈ کی ٹیم وہ یہ میچ تین گول سے ہی جیت سکی اور یوں پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی۔ پاکستانی ٹیم نے سیمی فائنل میں حسن سردار کے گول کی بدولت آسٹریلیا کو ہرایا تھا اور پھر فائنل میں جرمنی کو ایک کے مقابلے میں دوگول سے شکست دی تھی جس میں حسن سردار اور کلیم اللہ کے گول شامل تھے۔ منظور جونیئر ان دونوں میچوں کو اپنی زندگی کے بہترین میچز قرار دیتے ہیں۔ ’دونوں میچوں میں پاکستانی ٹیم نے اٹیکنگ ہاکی کھیلی تھی۔ دس کے دس کھلاڑی اٹیک پر ہوتے تھے اور دفاع بھی کرتے تھے۔
آسٹریلیا اور جرمنی دونوں ورلڈ کلاس ٹیمیں تھیں لیکن ان دونوں ٹیموں کے لیے ہمارا دفاع توڑنا آسان ثابت نہ ہوسکا۔‘
عبدالرشید شکور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی