ایک’ کُول‘ کپتان کی حوصلہ مند ٹیم

آج کا دن لندن کے سینٹ جانز وُڈ کے علاقے میں ایک ایسا دن تھا کہ جب آپ کسی
کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ سینٹ جانز وُڈ میں واقع دنیائے کرکٹ کے سب سے تاریخی میدان میں آج پاکستان اپنی اس فارم میں نظر آیا جو دنیا بھر میں اس ٹیم کی پہچان ہے، یعنی وہ پاکستانی ٹیم جس میں مہارت بھی ہوتی ہے، چالبازی بھی، جس میں گھورتی آنکھیں بھی ہوتی ہیں اور مسکراہٹیں بھی اور خوش قسمتی کے ساتھ ساتھ خطروں سے کھیلنے کا حوصلہ بھی ہوتا ہے۔

آج کرکٹ کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی میچ جس میں تین بڑی ٹیموں (آسٹریلیا، انڈیا اور انگلینڈ) میں سے کوئی ٹیم نہ کھیل رہی ہو، اسے کوئی میچ ہی نہیں سمجھتا۔ اس کے بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوہ ہمالیہ سر کیا ہو لیکن کرکٹ کی دنیا اس وقت تک اس کی تعریف نہیں کرتی آپ کوگھاس نہیں ڈالتی جب تک آپ ان تین بڑی ٹیموں میں سے کسی کو نہ ہرائیں۔
دنیا کی ساری توجہ انھی تین ممالک پر مرکوز رہتی ہے اور کرکٹ سے منسلک سارا پیسہ بھی ان ہی ممالک میں ہے۔

مصباح الحق نے اپنی ٹیم کی قیادت اس وقت سنبھالی جب یہ ٹیم آخری مرتبہ لارڈز کے میدان میں کھیلی تھی۔ یہ ٹیم متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں ایک ناقابل شکست ٹیم بن چکی ہے، لیکن اس کے باوجود اسے زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ اس لحاظ سے پاکستان کا یہ دورہ انگلینڈ اہم ہونا تھا کیونکہ اس دورے میں انھیں یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستانی ٹیم بھی ایک ٹیم ہے۔ اگر یہ ٹیم انگلینڈ سے جیت کر دکھا دیتی ہے تو پھر اسے تسلیم کیا جائے گا اور اس کی تعریف کی جائے گی۔ مصباح کی حالیہ ٹیم کی تشکیل سنہ 2014 میں اس وقت ہونا شروع ہوئی تھی جب سعید اجمل اور محمد حفیظ پر مکمل پابندی لگ گئی اور پاکستان کا بالنگ اٹیک بالکل بدل کر رہ گیا تھا۔ تب پاکستان نے اجمل کی جگہ جس بولر کو ٹیم میں شامل کیا وہ فوراً ہی دنیا کا بہترین سپنر بن گیا۔

ان دنوں مصباح کے پاس ٹیم میں شامل کرنے کے لیے تیز بالر بہت کم تھے لیکن اس دوران راحت علی اور عمران خان دونوں نے محنت جاری رکھی اور اپنی مہارت میں اضافہ کرتے رہے اور پھر ایک سال بعد وہاب ریاض کی شکل میں مصباح کو ایک اور اچھا تیز بولر مل گیا، ایک ایسا بولر جو مخالت بیٹنگ لائن کو اُڑا کر رکھ سکتا ہے۔ اور اس کے بعد محمد عامر ٹیم میں واپس آگئے اور پاکستان کے بولنگ اٹیک میں یکدم تیزی آگئی۔ پاکستان کے اس بولنگ اٹیک کے لیے انگلینڈ کی ساری ٹیم کو آؤٹ کرنے کے لیے صرف ایک دن کافی تھا۔ آج جس طرح پاکستانی بولر ایک ٹیم کی شکل میں کھیلے، اسے دیکھ کر لطف آگیا۔
انگلینڈ کی تمام وکٹیں چوکے، چھکے لگاتے ہوئے نہیں گریں، بلکہ ہر وکٹ گرنے سے پہلے کی گیندوں پر انگلینڈ کے بلے باز کوئی رن نہیں بنا پائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے انگلینڈ کے نئے آنے والے بلے باز کو آؤٹ کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ کارگر ثابت ہوا۔ یہی وہ پاکستانی ٹیم ہے جس سے ایک دنیا محبت کرتی رہی ہے۔ ایک ایسی ٹیم جو مخالف بلے باز کو جب تک پویلین واپس نہیں بھیج دیتی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اس کے باوجود آج پاکستان کی جو ’روایتی‘ ٹیم ہم نے لارڈز میں دیکھی اس میں ایک فرق واضح تھا اور وہ یہ کہ اس ٹیم کی کپتانی مصباح کے ہاتھ میں تھی۔
یہ سال کپتان کے لیے زبردست سال رہا ہے۔ اس سال کے شروع میں انھوں نے پی ایس ایل کی پہلی ٹرافی جیتی اور سال کے آخر میں آخر کار انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ اتنی خوبصورت داڑھی میں بہت ’ُکول‘ لگتے ہیں۔ پاکستان یہ میچ اسی وقت جیت گیا تھا جب سینچری بنانے کے بعد کپتان نے میدان میں ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تھے، کیونکہ اپنے کپتان کی خوشی اور ان کا اعتماد دیکھ کر ٹیم کے حوصلے مزید بلند ہو گئے تھے۔ اسی لیے میچ جیتنے کے بعد جب ساری ٹیم نے ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تو اس پر کسی کو بھی زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔
یہ لمحہ واقعی بہت خوبصورت، حیرت انگیز اور مسرت سے بھرپور لمحہ تھا۔
چھ سال پہلے مصباح الحق سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک ٹوٹی پھوٹی ٹیم کو آ کر سنبھالیں اور آج چھ سال بعد انھوں نے پاکستان کو ایک ایسی ٹیم دے دی ہے جو ماضی کی کسی بھی بہترین پاکستانی ٹیم سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہے۔
احمر نقوی
سپورٹس تجزیہ کار

بیس برس بعد پاکستانی بولر عالمی رینکنگ میں سرفہرست

انگلینڈ کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میچ میں دس وکٹیں لینے والے پاکستانی لیگ سپنر
یاسر شاہ آئی سی سی کی ٹیسٹ بولروں کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر آ گئے ہیں۔ یاسر شاہ نے انگلینڈ کے خلاف پہلی اننگز میں 72 رنز کے عوض چھ وکٹیں اور دوسری اننگز میں 69 رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس شاندار پرفارمنس کے باعث وہ 32 پوائنٹس حاصل کر کے رینکنگ میں چوتھے نمبر سے پہلے نمبر پر آ گئے ہیں۔ یاسر شاہ تقریباً 20 سال میں پہلے پاکستانی بولر ہیں جو آئی سی سی کی رینکنگ میں سرفہرست آئے ہیں۔

اس سے قبل 1996 میں لیگ سپنر اور پاکستان کے موجودہ بولنگ کوچ مشتاق احمد آئی سی سی کی درجہ بندی میں پہلے نمبر آئے تھے۔ یاسر شاہ گذشتہ 11 برس میں ایسے پہلے لیگ سپنر بھی ہیں جو اس درجہ بندی میں سب سے اوپر پہنچے ہیں۔ ان سے قبل آسٹریلیا نے شین وارن سنہ 2005 میں دنیا کے بہترین ٹیسٹ بولر قرار دیے گئے تھے۔ آئی سی سی رینکنگ کے مطابق یاسر شاہ 878 پوائنٹس کے ساتھ پہلے اور انڈیا کے روی چندرن ایشون 871 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں جبکہ انگلینڈ کے جیمز اینڈرسن کا نمبر تیسرا ہے۔

آئی سی سی کی پریس ریلیز کے مطابق 30 سالہ یاسر شاہ کے پوائنٹس میں مزید اضافے کا امکان ہے کیونکہ وہ ابھی کوالیفائنگ پیریڈ میں ہیں۔ واضح رہے کہ بولر کی فُل رینکنگ اس وقت کی جاتی ہے جب وہ 100 وکٹیں حاصل کر لے۔

26 اکتوبر 2014 کو اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے یاسر شاہ نے اس وقت 13 ٹیسٹ میچوں میں 86 وکٹیں حاصل کی ہیں جو کہ اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔
آئی سی سی کی درجہ بندی میں یاسر شاہ کے علاوہ پاکستان کے راحت علی 35 ویں نمبر سے 32 ویں نمبر جبکہ چھ سال بعد انٹرنیشنل ٹیسٹ کھیلنے والے محمد عامر 93 ویں نمبر پر ہیں۔
جہاں تک بیٹنگ کی رینکنگ کی بات ہے تو پاکستان کے اسد شفیق 13 ویں سے 11 ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ انھوں نے لارڈز ٹیسٹ میں 73 اور 49 رنز سکور کیے۔
پاکستان کے کپتان مصباح الحق اپنی سنچری کے باعث 10 ویں سے نویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں جبکہ سرفراز احمد 17 ویں پوزیشن پر آ گئے ہیں۔

لارڈز کی تاریخی جیت ایدھی کے نام

پاکستانی کپتان مصباح الحق نے انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی کو
فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کے نام کیا ہے۔ بی بی سی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے مصباح الحق نے کہا کہ’ ایدھی صاحب نے جو ہمارے لیے کیا ہے، کامیابی ان کے نام کرنا پاکستانی قوم کی جانب سے انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہے۔‘انھوں نے کہا کہ لارڈز میں جیت بحیثیت کپتان ان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ ’لارڈز کے تاریخی گراؤنڈ میں جیتنا کسی بھی کپتان کے لیے ایک سپیشل وکٹری ہوتی ہے اور میرے لیے بھی آج کا دن تاریخی ہے۔‘

بعدازاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصباح الحق نے توقع ظاہر کی کہ پاکستانی ٹیم سیریز کے اگلے میچز میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔
مصباح الحق نے یہ بھی کہا کہ ہم جیت تو گئے ہیں تاہم ہمیں بیٹنگ میں ڈسیپلن کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً شارٹس سلیکشن کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔‘پاکستان میں ٹیلنٹ ہے ہی نہیں شاہد آفریدی کے اس بیان پر مصباح الحق نے کہا کہ یہ آفریدی کا ذاتی تجزیہ ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں موجود ٹیلینٹ کو ورلڈ کلاس لیول پر لانے کے لیے مزید پالش کرنے کی ضرورت ہے۔

لارڈز ٹیسٹ کے ٹرننگ پوائنٹس کونسے تھے؟

اس سوال کےجواب میں مصبالح الحق نے کہا کہ ’پہلی اننگز کی برتری اور دوسری اننگز میں اسد شفیق اور سرفراز کی پارٹنرشپ میچ کے ٹرننگ پوائنٹس تھے۔‘ فتح کے بعد پاکستانی ٹیم گراؤنڈ میں اس بار سجدوں کے بجائے ہمیں پش اپس اور سلیوٹ کرتی دکھائی دی۔ مصباح الحق نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پش اپس اور سلیوٹ ان پاکستانی فوجی جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیے گئے ’جو اپنی کم تنخواہوں پر ملک و قوم کے لیے زندگی قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ فوجی جوانوں نے برطانیہ کے دورے سے قبل پاکستان آرمی کے زیرِاہتمام ہونے والے ٹریننگ کیمپ میں قومی ٹیم کی بہت مدد کی تھی۔
عادل شاہ زیب
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

یاسر شاہ عالمی نمبر ایک ٹیسٹ باؤلر بن گئے

لارڈز ٹیسٹ میں دس وکٹیں لے کر پاکستان کو انگلینڈ کے فتح سے ہمکنار کرانے
والے یاسر شاہ کو شاندار باؤلنگ کا انعام مل گیا ہے اور ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر فائز ہو گئے ہیں۔ لارڈز ٹیسٹ میچ شروع ہونے سے قبل پاکستانی لیگ اسپنر عالمی درجہ بندی میں چوتھے درجے پر موجود تھے تاہم انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں دس وکٹیں لے کر وہ عالمی نمبر ایک باؤلر بن گئے ہیں۔

پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف پہلی اننگ میں 339 رنز بنائے لیکن یاسرشاہ نے 6 وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو پہلی اننگز میں لیڈ دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری اننگ میں 30 رنز کی اہم باری کھیلنے والے یاسر شاہ نے جہاں اسکور کو معقول مجموعے تک پہنچایا تو دوسری اننگ میں بھی یاسرکی بل کھاتی گیندوں کا انگلش بلے بازوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، یاسرشاہ نے دوسری اننگز میں 4 کھلاڑیوں کا شکار کیا۔

میچ میں دس وکٹوں کی بدولت وہ نا صرف بہترین کھلاڑی کا اعزاز جیتنے میں کامیاب رہے بلکہ ساتھ ساتھ 878 رینکنگ پوائنٹس کے ساتھ عالمی نمبر ایک باؤلر بھی بن گئے ہیں۔ یاسر شاہ گزشتہ 20 سال میں عالمی نمبر ایک باؤلر بننے والے پہلے پاکستانی باؤلر ہیں جہاں اس سے قبل دسمبر 1996 میں مشتاق احمد اس منصب پر فائز ہوئے تھے ۔ وہ 2005 کے بعد یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے لیگ اسپنر ہیں، اس سے قبل دسمبر 2005 میں شین وارن نے یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ وہ ناصرف پاکستان بلکہ ایشیا کے واحد باؤلر ہیں جس نے لارڈز میں دس وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔

یاسر کے ساتھ ساتھ دونوں اننگ میں عمدہ بلے بازی کرنے والے اسد شفیق بھی دو درجہ ترقی کر کے 11 نمبر پر پہنچ گئے ہیں جبکہ سرفراز کی بھی ترقی ہوئی ہے اور وہ 17ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ تاہم یونس خان تنزلی کے بعد چھٹے نمبر پر چلے گئے ہیں جبکہ مصباح الحق نویں نمبر پر موجود ہیں۔ انگلینڈ کی جانب سے 11 وکٹیں لینے والے کرس ووکس نے 28 درجے ترقی کی اور وہ عالمی رینکنگ میں کیریئر کی بہترین 36ویں پوزیشن پر براجمان ہو گئے ہیں جبکہ بیئراسٹو بھی دو درجہ ترقی کے بعد کیریئر کی بہترین 16ویں پوزیشن پر پہنچ گئے ہیں۔

بیس سال بعد لارڈز میں پاکستان کی شاندار جیت

پاکستان اور انگلینڈ کے مابین لارڈز کےمیدان پرکھیلےگئے پہلے ٹیسٹ میں

پاکستان نے 75 رنز سے کامیابی حاصل کر کے چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی ہے۔ پاکستان کے 283 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ کی پوری ٹیم 207 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔

  
یاسر شاہ نے دوسری اننگز میں چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہے اس طرح اس میچ میں ان کی وکٹوں کی تعداد دس ہوگئی۔ انگلینڈ کے آؤٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی کپتان کک تھے جو آٹھ رنز بنا کر راحت علی کے گیند پر سرفراز کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ دیگر بیٹمسمینوں میں ہیلز16، جو روٹ نو، ونس 42، بیلنس 43 ، معین علی دو اور کرس براڈ ایک اور بال تین رنز بنا کر آوٹ ہوئے۔ بیلنس نے بھی پراعتماد بلے بازی کا مظاہرہ کیا تاہم وہ 43 کے انفرادی سکور پر یاسر شاہ کی پہلی وکٹ بنے۔

بیرسٹو نے پاکستانی بولنگ کا جم کا مقابلہ کیا تاہم وہ 48 کے انفرادی سکور پر یاسر شاہ کا تیسرا شکار بن گئے۔ پاکستان کی طرف سے راحت علی نے تین جبکہ محمد عامر نے دو اور وہاب ریاض ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔ اس سے قبل تیسرے روز کھیل کے اختتام تک پاکستان نے آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 214 رنز بنائے تھے اور اس طرح اس کی مجموعی برتری281 رنز ہو چکی ہے تاہم چوتھے روز صرف ایک رنز کے اضافے کے ساتھ پوری ٹیم آؤٹ ہوگئی۔ یاسر شاہ 30 اور محمد عامر ایک رن بنا کر آؤٹ ہوئے۔ دونوں کھلاڑیوں کو کرس براڈ نے آؤٹ کیا۔ اس میچ میں کرس ووکس نے گیارہ وکٹیں حاصل کیں۔

پاکستان کے آؤٹ ہونے والوں کھلاڑیوں میں سرفراز احمد 45، اسد شفیق 49، یونس خان 29، مصباح الحق 0، اظہر علی 23، محمد حفیظ 0 اور شان مسعود 24 شامل ہیں۔ مصباح الحق آف سپنر معین علی کو چھکا لگانے کی کوشش میں باونڈری پر کیچ آؤٹ ہوگئے ۔ وہاب ریاض بغیر کوئی رنز بنائے کرس ووکس کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ دوسری اننگز میں ووکس نے چھ، براڈ نے تین اور بال نے ایک وکٹ حاصل کی۔ اس سے پہلے پاکستان کی پہلی اننگز میں 339 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں انگلینڈ کی ٹیم پہلی اننگز میں 272 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی اس طرح پاکستان کو 67 رنز کی برتری حاصل ہو گئی۔ فاسٹ بولر وہاب ریاض اور سپنر یاسر شاہ کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔ انگلینڈ کے ایک کھلاڑی رن آؤٹ ہوئے۔
پہلی اننگز میں پاکستان کی جانب سے یاسر شاہ سب سے کامیاب بولر رہے۔ یاسر شاہ نے 29 اووروں میں صرف 70 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کی تھیں۔
یاسر شاہ پہلے لیگ سپنر ہیں جنھوں نےگذشتہ 20 برسوں میں لارڈز کے میدان میں پہلی بار ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ پچھلی بار پاکستانی لیگ سپنر مشتاق احمد نے لارڈز میں پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔

یاسر شاہ لارڈز میں 10 وکٹیں لینے والے پہلے ایشیائی کھلاڑی

لارڈز کے گراؤنڈ میں انگلینڈ کے خلاف کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستانی
کرکٹ ٹیم کے لیگ اسپنر یاسر شاہ نے 10 وکٹیں حاصل کرکے پہلے ایشائی کھلاڑی کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔ لارڈزمیں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں یاسرشاہ نے اپنی گھومتی گیندوں سے انگلش بلے بازوں کو چکرا کر رکھ دیا اور مجموعی طور پر 10 انگلش بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ میچ کی پہلی اننگز میں یاسرشاہ نے 6 وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو اننگز میں لیڈ دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

 دوسری اننگز میں بھی یاسرکی بل کھاتی گیندوں کا انگلش بلے بازوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، یاسرشاہ نے دوسری اننگز میں 4 کھلاڑیوں کا شکار کیا۔

واضح رہے کہ یاسر شاہ لارڈز میں 10 وکٹیں حاصل کرکے، ایسا کرنے والے پہلے ایشائی کھلاڑی کا اعزاز بھی حاصل کرلیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان کے لیگ اسپنر یاسر شاہ نے لارڈز ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے سابق باؤلر چارلی ٹرنر کا 13 ٹیسٹ میچوں میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا 123 سالہ پرانا ریکارڈ اپنے نام کرلیا اور تیز ترین 100 وکٹیں حاصل کرنے کے ریکارڈ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ یاسر شاہ نے انگلینڈ کے خلاف سیریز کے پہلے میچ کی پہلی اننگز میں 6 وکٹیں حاصل کرکے اپنی وکٹوں کی تعداد 82 کر دی جو ٹرنر سے ایک وکٹ زیادہ ہے جبکہ اس فرق کو مزید وسیع کرنے کے لیے ان کے پاس ابھی دوسری اننگز باقی ہے۔
پاکستانی لیگ اسپنر یاسرشاہ کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ اس موقع پر یاسر شاہ کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کے خلاف اچھی کارکردگی پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں جبکہ لائن اور لینتھ پر باؤلنگ کرنے سے انھیں کامیابی ملی۔ یہ بھی  
ان کا کہنا تھا کہ انھیں پوری ٹیم نے سپورٹ کیا اور میچ میں کامیابی پوری ٹیم کی محنت سے ممکن ہوئی۔ پاکستانی لیگ اسپنر کا کہنا تھا کہ’میں خوش قسمت ہوں کہ مشتاق احمد کوچ اور انتخاب عالم ٹیم کے ساتھ ہیں، دونوں کے مشوروں سے مجھے بہت فائدہ ہوا’۔ خیال رہے کہ یاسر شاہ کی بہترین باؤلنگ کی بدولت پاکستان نے لارڈز میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کو 75 رنز سے شکست دے کر 4 میچوں کی سیریز میں 1-0 سے برتری حاصل کرلی ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ کا 123 سال پرانا ریکارڈ یاسر شاہ کے نام

 پاکستان کے لیگ اسپنر یاسر شاہ نے لارڈز ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے سابق باؤلر
چارلی ٹرنر کا 13 ٹیسٹ میچوں میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا 123 سالہ پرانا ریکارڈ اپنے نام کرلیا اور تیز ترین 100 وکٹیں حاصل کرنے کے ریکارڈ کے قریب  پہنچ گئے ہیں۔ یاسر شاہ نے انگلینڈ کے خلاف سیریز کے پہلے میچ کی پہلی اننگز میں 6 وکٹیں حاصل کرکے اپنی وکٹوں کی تعداد 82 کر دی جو ٹرنر سے ایک وکٹ زیادہ ہے جبکہ اس فرق کو مزید وسیع کرنے کے لیے ان کے پاس ابھی دوسری اننگز باقی ہے۔

پاکستان کے باؤلرز نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلینڈ کو پہلی اننگز میں 272 رنز پر آؤٹ کرکے 67 رنز کی برتری حاصل کی تھی۔ یاسر شاہ کو ٹیسٹ کرکٹ میں تیزترین 100 وکٹیں حاصل کرنے کے لیے مزید 5 اننگز میں 18 وکٹیں درکار ہیں۔ انگلینڈ ٹیم کے سابق باؤلر جارج لوہمین نے 120 سال قبل 16 میچوں میں یہ سنگ میل عبور کیا تھا جو تاحال ایک ریکارڈ ہے۔ یاسر شاہ نے اکتوبر 2014 میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ میں ڈیبو کیا تھا جس کے بعد انھوں نے تیز ترین 50 وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ بھی بنایا تھا۔ لیگ اسپنر نے اپنے 13 میچوں میں 5 دفعہ ایک اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا، لارڈز ٹیسٹ میں گزشتہ روزن انھوں نے 5 وکٹیں حاصل کر کے اعزازی بورڈ میں اپنا نام درج کرادیا۔

واضح رہے ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین 100 وکٹیں حاصل کرنے والے باؤلرز میں دوسرے نمبر پر آسٹریلیا کے چارلی ٹرنر، کلیری گریمٹ اور انگلینڈ کے سڈ بیرنس ہیں جنھوں نے 17 میچوں میں یہ ریکارڈ بنایا جبکہ ہندوستان کے روی ایشون 18 میچوں میں 100 وکٹیں لینے والے تیسرے باؤلر ہیں۔ پاکستان ٹیم کے سعید اجمل 19 میچوں میں 100 وکٹیں حاصل کرنے والے چوتھے باؤلر ہیں ان کے ساتھ انگلینڈ کے کولن بلیتھ، ویسٹ انڈیز کے ایلف ویلنٹائن، اینڈی رابرٹ، انگلینڈ کے سابق آل راؤنڈرآئن بوتھم اور جنوبی افریقہ کے ورنن فلینڈر بھی مشترکہ طورپر اس نمبر پر موجود ہیں۔