An all-time-classic : England celebrates Cricket World Cup victory

England made history when they lifted the World Cup for the first time ever. The match itself, however, may be dubbed as the best Cricket World Cup final in years to come. The hosts, who needed a modest total of 242 for victory, ended the game on 241 all out — a tie that sent the match into a Super Over. The six-ball shootout also ended in a tie, with both sides hitting 15 runs, but Eoin Morgan’s side won by virtue of a superior boundary count in the match.

ورلڈکپ فائنل میں اللہ ہمارے ساتھ تھا، آئن مورگن

ورلڈکپ 2019 کا ٹائٹل جیتنے والی انگلش ٹیم کے کپتان آئن مورگن نے کہا کہ ‘ورلڈکپ فائنل میں اللہ ہمارے ساتھ تھا’۔ کرکٹ کے عالمی میلے کا فائنل 14 جولائی کو لارڈز میں کھیلا گیا جس میں انگلینڈ فاتح قرار پایا اور 3 مرتبہ کی ناکام کوششوں کے بعد بالآخر چوتھی کوشش پر پہلی مرتبہ ورلڈکپ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ میچ کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئن مورگن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ‘فائنل میں اللہ ہمارے ساتھ تھا۔’ اپنی بات کو مزید جاری رکھتے ہوئے انگلش کپتان کا کہنا تھا کہ ‘بالکل! میری عادل رشید سے بات ہوئی تو اس نے کہا تھا کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔’ انہوں نے کہا کہ ہماری ٹیم کی خاص بات اس میں شامل مختلف ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔

امام الحق نے 36 سال پرانا ریکارڈ توڑ دیا

تیسرے ون ڈے میں امام الحق نے 131 گیندوں پر 151 رن بنا کر انگلینڈ میں 36 سال پرانا ریکارڈ توڑ دیا۔ انگلش سرزمین پر ون ڈے اننگز میں 150 رنز بنانے والے کم عمر ترین کھلاڑی بن گئے، امام نے 23 سال 153 دن کی عمر میں کارنامہ انجام دیا۔ اس سے پہلے کپیل دیو نے 1983 میں چوبیس سال 163 دن کی عمر میں زمبابوے کے خلاف 175 رن کی اننگز کھیلی تھی۔ امام الحق انگلینڈ کے خلاف سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلنے والے پاکستانی بیٹسمین بھی بن گئے۔ انہوں نے 151 رنز بنا کر فخر زمان کو 138 رنز کے ریکارڈ سے محروم کر دیا۔ امام الحق پاکستان کے پانچویں بیٹسمین ہیں جنہوں نے ون ڈے کرکٹ میں 150 سے زائد رنز بنائے ہیں۔
 

برطانیہ کے مسلمان کرکٹرز : آپ مذہب اور کھیل کو ساتھ چلا سکتے ہیں

نومبر 2016 میں انڈیا کے شہر راجکوٹ میں انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ کھیلا گیا جس میں انگلینڈ کی ٹیم نے ایک انوکھی نوعیت کی تاریخ رقم کی۔ اس میچ کی خاص بات یہ تھی کہ اپنی ٹیسٹ کرکٹ کی 139 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ انگلینڈ کی ٹیم میں ایک ہی وقت پر چار جنوبی ایشیائی نژاد برطانوی مسلمان کھلاڑی شامل تھے۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ انگلینڈ کی ٹیم میں برطانوی مسلمان کھلاڑیوں کو جگہ ملی ہو۔ ناصر حسین نہ صرف 90 کی دہائی سے ٹیم کا حصہ رہے بلکہ انھیں اپنے ملک کی کپتانی کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔

ناصر حسین کے علاوہ اویس شاہ، ساجد محمود، کبیر علی بھی قومی ٹیم کی نمائندگی کر چکے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو اس درجے کی کامیابی نہیں ملی جو ناصر حسین کو ملی تھی۔ راجکوٹ میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں شامل ان چار کھلاڑیوں میں سے ایک، ظفر انصاری نے محض 25 برس کی عمر میں تین ٹیسٹ کھیلنے کے بعد ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا جبکہ 19 سال میں ڈیبیو کرنے والے حسیب حمید انجری کے باعث ایک سال سے کرکٹ نہیں کھیل سکے ہیں۔
لیکن دوسری جانب معین علی انگلینڈ کرکٹ کے نئے پوسٹر بوائے کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں اور اس سال کھیلے گئے آٹھ ٹیسٹ میچوں میں انھوں نے 361 رنز بنائے ہیں اور 30 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ لیگ سپنر عادل راشد بھی ٹیم کا مستقل حصہ رہے ہیں۔

عادل راشد اور بالخصوص معین علی کی واضح کامیابی کے باوجود انگلینڈ کرکٹ چلانے والوں کو اس بات کا احساس ہے کہ جنوبی ایشیائی نژاد برطانوی نوجوان کرکٹ کھیلتے ضرور ہیں لیکن وہ بنیادی درجے تک محدود رہتے ہیں اور بہت کم تعداد میں کھلاڑی کرکٹ کو بطور پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ بی بی سی ایشین نیٹ ورک کے ریڈیو پروگرام کے میزبان انُکر ڈیسائی نے راجکوٹ میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں شامل معین علی، عادل راشد، حسیب حمید اور ظفر انصاری سے اس حوالے سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی کرکٹ کھیلنے کے لیے حوصلہ افزائی کیسے کی جا رہی ہے اور یہ چاروں کھلاڑی کس طرح اگلی نسل کے کھلاڑیوں کے لیے رول ماڈل بن سکتے ہیں۔

برمنگھم میں مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے معین علی نے انکر ڈیسائی کو بتایا کہ انھیں بچپن سے ہی کرکٹ کا شوق تھا جسے دیکھتے ہوئے ان کے والد نے انھیں کرکٹ پر توجہ دینے کی ترغیب دی۔ ‘میرے والد نے مجھ سے کہا کہ 13 سے 15 کی عمر میں تم کرکٹ پر توجہ دو اور اس کے بعد جو دل چاہے کرو‘۔
یارک شائر سے تعلق رکھنے والے لیگ سپنر اور معین علی کے قریبی دوست عادل راشد نے اپنے بچپن کے بارے میں بتایا کہ انھیں بھی کرکٹ کھیلنے کے لیے اپنے گھر والوں کی حمایت ملی۔ ایک سوال کے جواب میں عادل راشد نے کہا کہ ‘میرے والد رات بھر ٹیکسی چلاتے تھے لیکن صبح سات بجے گھر آنے کے بعد وہ مجھے نو بجے کرکٹ کھیلنے کے لیے میدان میں لے جاتے تھے اور پورا پورا دن میرے ساتھ رہتے تھے۔ انھوں نے میرے لیے اپنا بہت وقت قربان کیا‘۔

لیکن عادل راشد اپنی کامیابیوں کے باوجود اپنے ماضی کو نہیں بھولے ہیں اور نئی نسل کے کھلاڑیوں کی آسانی کے لیے انھوں نے کرکٹ اکیڈمی قائم کی ہے تاکہ جنوبی ایشیائی نژاد نوجوان کرکٹ وہاں کھیل سکیں۔ ‘اسے قائم کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ ان بچوں کو معیاری کرکٹ کھیلنے کا موقع ملے تاکہ وہ مستقبل میں بہتر کھیل پیش کر سکیں‘۔ معین اور عادل کی طرح چھوٹی عمر سے کرکٹ شروع کرنے والے حسیب حمید نے 19 برس کی عمر میں اپنا پہلا میچ کھیلا اور عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ معین علی، عادل راشد اور حسیب حمید کے ساتھ کھیلنے سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

لیکن ان تینوں کھلاڑیوں کے برعکس ظفر انصاری نے صرف تین ٹیسٹ میچوں میں شرکت کے بعد 25 برس کی عمر میں کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ کیمبرج یونیورسٹی سے پڑھائی مکمل کرنے والے ظفر انصاری نے انکر ڈیسائی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کافی عرصے سے کرکٹ کو چھوڑنے کا سوچ رہے تھے اور انھیں اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کرکٹ کے لیے وقف نہیں کر سکتے۔ انھیں اس بات پر مزید پختہ یقین گذشتہ سال ہونے والے امریکی انتخابات کے دوران ہوا جب وہ راجکوٹ کا ٹیسٹ کھیل رہے تھے۔ ‘کرکٹ کی وجہ سے ہمارے پاس فون نہیں تھے اور ہمیں کرکٹ پر توجہ دینی تھی لیکن میرا دل انتخابات کے نتائج پر تھا یہ جاننے کے لیے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے‘۔

ظفر انصاری اس لحاظ سے باقی تین کھلاڑیوں سے مختلف ہیں کیونکہ ان کے والد پاکستانی اور والدہ انگریز ہیں اور وہ دونوں تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ‘مجھے اندازہ ہے کہ میرا پس منظر ان تینوں سے مختلف ہے لیکن ان کے ساتھ کرکٹ کھیل کر مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے‘۔ تحقیق کے مطابق برطانیہ میں تفریحی کرکٹ کھیلنے والے 40 فیصد بچے ایشیائی نژاد ہیں لیکن ان میں سے صرف چار فیصد ہیں جو کرکٹ کو پیشہ ورانہ طور پر اختیار کرتے ہیں۔
معین علی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بحیثیت ایشیائی برطانوی مسلمان ان بچوں کی رہنمائی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثر بدلنا چاہتے ہیں اور اپنے کھیل اور کردار سے دکھانا چاہتے ہیں کہ ‘آپ مذہب اور کھیل دونوں ساتھ چلا سکتے ہیں‘۔

بشکریہ بی بی سی اردو

 

معین علی کی تاریخی کارکردگی

انگلینڈ کے آل راؤنڈر معین علی نے 2016 میں ٹیسٹ کرکٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام جنوبی افریقہ کے سابق آل راؤنڈر کیلس اور انگلینڈ کے آئن بوتھم کے ساتھ درج کروا لیا ہے۔ 2016 میں معین علی ٹیسٹ کرکٹ میں 1000 رنز اور 30 وکٹیں حاصل کرکے ایک سال میں یہ کارنامہ انجام دینے والے تیسرے آل راؤنڈر بن گئے ہیں۔ کرکٹ ڈاٹ کام اے یو کے مطابق معین علی نے ہندوستان کے خلاف پانچویں ٹیسٹ میں ایشانت شرما کی گیند پر رن لے کے یہ اعزاز حاصل کیا اور سابق مشہور آل راؤنڈر کیلس اور بوتھم کی فہرست میں شامل ہوگئے۔
بوتھم پہلے کھلاڑی تھے جنھوں نے 1982 میں ایک سال کے دوران ٹیسٹ کرکٹ میں 47 وکٹوں کے ساتھ ساتھ ایک ہزار 95 رنز بنانے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
جنوبی افریقہ کے کیلس 2001 میں ایک ہزار 120 رنز بنانے کے علاوہ 35 وکٹیں حاصل کرنے والے دوسرے کھلاڑی بن گئے تھے۔ تاہم اگر تینوں کھلاڑیوں کا موازنہ کیا جائے تو معین علی نے اس ایک سال کے دوران زیادہ میچ کھیلے ہیں، بوتھم نے 1982 میں 13، کیلس نے 2001 میں 14 ٹیسٹ کھیلے تھے جبکہ معین علی نے انگلینڈ کی جانب سے 2016 کے تمام 17 میچوں میں نمائندگی کی۔
معین علی نے آسٹریلیا، پاکستان، جنوبی افریقہ، سری لنکا اور انڈیا سمیت تمام بڑی ٹیموں کے خلاف کھیل کر سال کے آخر میں ایک ہزار 78 رنز بنائے جبکہ ہندوستان کے خلاف دورے میں دو سنچریاں بنانے والے سرفہرست انگلش بلےبازوں میں بھی شامل ہو گئے تھے۔
معین علی 2016 میں ایک ہزار سے زیادہ رنزبنانے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہیں جبکہ اس فہرست میں انگلینڈ کے کھلاڑیوں کا راج ہے۔
انگلینڈ کے جوروٹ اس فہرست میں اب تک 1477 رنز بنا کر سہرفہرست ہے، انگلینڈ کے ہی جونی بیئراسٹو 1470 رنز بنا کر دوسرے، کپتان الیسٹر کک 1270 رنز بنا کر تیسرے نمبر پر موجود ہیں۔ ہندوستانی ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے 2016 میں 1215 رنز بنائے اور چوتھے نمبر پر موجود ہیں۔ پاکستان ٹیم کے نائب کپتان اظہرعلی 950 رنز بنا کر اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہیں اور انھیں آسٹریلوی کپتان پر برتری حاصل ہے جنھوں نے 914 رنز بنا رکھے ہیں۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان رواں سال کا آخری ٹیسٹ میچ 26 دسمبر کو شروع ہوگا جہاں دونوں کھلاڑی اپنی پوزیشن کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ پاکستانی بلےبازوں میں اسد شفیق نے 10 میچوں میں 667 رنزاور یونس خان نے 628 رنز بنائے اور سمیع اسلم 607 رنز بنا کر نمایاں ہیں