ورلڈکپ فائنل : کمار دھرما سینا نے انگلینڈ کو اضافی رن دینے کی غلطی تسلیم کر لی

انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان کرکٹ ورلڈکپ 2019 کے فائنل میں امپائرنگ کے فرائض انجام دینے والے سری لنکن امپائر کمار دھرما سینا نے انگلینڈ کو ایک اضافی رن دینے کی غلطی تسلیم کر لی۔ عالمی میلے کو ختم ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے جبکہ اس کے فائنل کے سنسنی خیز لمحات میں ہونے والے امپائر کے ایک فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جہاں انگلینڈ کو نیوزی لینڈ کے خلاف فتح کے لیے آخری اوور میں 15 رنز درکار تھے وہاں کیوی فیلڈر مارٹن گپٹل کی تھرو انگلش بیٹسمین بین اسٹوکس سے ٹکرا کر باؤنڈری لائن پار کر گئی تھی جس کی صورت میں امپائر نے بیٹنگ ٹیم کو 6 رنز دے دیے۔

مذکورہ رنز کو انگلینڈ کے چیمپیئن بننے کے لیے اہم ترین رنز اور میچ کا ٹرننگ پوائنٹ قرار دیا جارہا ہے۔ کرکٹ ماہرین سمیت سابق انٹرنیشنل امپائر سائمن ٹوفل نے بھی اس فیصلے پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ امپائر کمار دھرماسینا نے بیٹنگ ٹیم کو رنز دینے میں غلطی کی اور ممکنہ طور پر انہیں ایک رن زیادہ دیا گیا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کمار دھرماسینا نے سنڈے ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ٹیلی ویژن ری پلے کی سہولت نہیں تھی جہاں وہ دیکھ سکتے کہ کیا بیٹسمین نے رن لیتے ہوئے ایک دوسرے کو کراس کیا یا نہیں؟ انہوں نے اعتراف کیا کہ میں مانتا ہوں کہ میرے فیصلے میں غلطی ہوئی جس کا احساس ٹی وی ری پلے دیکھنے کے بعد ہوا۔

امپائر کے لیے مہیا کردہ سہولیات کو مد نظر رکھتے ہوئے کمار دھرماسینا نے کہا کہ مجھے اپنے فیصلے پر پشیمانی نہیں ہے۔ کمار دھرماسینا نے کہا کہ انہوں نے دوسرے میچ آفیشل سے گفتگو کرنے کے بعد ہی 6 رنز دینے کا اشارہ کیا تھا لیکن اس دوران امپائرز کی گفتگو کو تمام میچ آفیشلز نے بھی سنا تھا جن میں میچ ریفری بھی شامل تھے۔ سری لنکن امپائر نے کہا کہ ‘تمام آفیشلز نے تصدیق کی کہ بیٹسمین نے دوسرا رن مکمل کر لیا تھا جس کے بعد میں نے اپنا فیصلہ لیا۔’ خیال رہے کہ فائنل میں نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے انگلینڈ کو جیت کے لیے 242 رنز کا ہدف دیا لیکن انگلینڈ کی ٹیم بھی کیویز کی طرح 241 رنز بنا کر آل آؤٹ ہو گئی تھی۔ میچ سپر اوور تک گیا اور حیرت انگیز طور پر یہ بھی برابر ہو گیا جس کے بعد انگلینڈ کو میچ میں زیادہ باؤنڈریز لگانے پر چیمپیئن قرار دیا گیا تھا۔

بشکریہ ڈان نیوز

An all-time-classic : England celebrates Cricket World Cup victory

England made history when they lifted the World Cup for the first time ever. The match itself, however, may be dubbed as the best Cricket World Cup final in years to come. The hosts, who needed a modest total of 242 for victory, ended the game on 241 all out — a tie that sent the match into a Super Over. The six-ball shootout also ended in a tie, with both sides hitting 15 runs, but Eoin Morgan’s side won by virtue of a superior boundary count in the match.

ورلڈکپ فائنل میں اللہ ہمارے ساتھ تھا، آئن مورگن

ورلڈکپ 2019 کا ٹائٹل جیتنے والی انگلش ٹیم کے کپتان آئن مورگن نے کہا کہ ‘ورلڈکپ فائنل میں اللہ ہمارے ساتھ تھا’۔ کرکٹ کے عالمی میلے کا فائنل 14 جولائی کو لارڈز میں کھیلا گیا جس میں انگلینڈ فاتح قرار پایا اور 3 مرتبہ کی ناکام کوششوں کے بعد بالآخر چوتھی کوشش پر پہلی مرتبہ ورلڈکپ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ میچ کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئن مورگن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ‘فائنل میں اللہ ہمارے ساتھ تھا۔’ اپنی بات کو مزید جاری رکھتے ہوئے انگلش کپتان کا کہنا تھا کہ ‘بالکل! میری عادل رشید سے بات ہوئی تو اس نے کہا تھا کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔’ انہوں نے کہا کہ ہماری ٹیم کی خاص بات اس میں شامل مختلف ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔

Captains rub shoulders with royals ahead of World Cup 2019

The International Cricket Council World Cup 2019 officially kicked off at The Oval, where South Africa are playing England. Before the match started, Prince Harry chatted with the flag bearers and posed for pictures. He also addressed the crowd at The Oval which was bedecked with balloons featuring flags of the contesting teams. Britain Prime Minister Theresa May was also among the spectators. The celebrations of the tournament, however, had began yesterday as London hosted an “opening party” after the captains of cricket teams that are contesting in the World Cup rubbed shoulders with the royals at the Buckingham Palace.

برطانیہ کے مسلمان کرکٹرز : آپ مذہب اور کھیل کو ساتھ چلا سکتے ہیں

نومبر 2016 میں انڈیا کے شہر راجکوٹ میں انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ کھیلا گیا جس میں انگلینڈ کی ٹیم نے ایک انوکھی نوعیت کی تاریخ رقم کی۔ اس میچ کی خاص بات یہ تھی کہ اپنی ٹیسٹ کرکٹ کی 139 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ انگلینڈ کی ٹیم میں ایک ہی وقت پر چار جنوبی ایشیائی نژاد برطانوی مسلمان کھلاڑی شامل تھے۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ انگلینڈ کی ٹیم میں برطانوی مسلمان کھلاڑیوں کو جگہ ملی ہو۔ ناصر حسین نہ صرف 90 کی دہائی سے ٹیم کا حصہ رہے بلکہ انھیں اپنے ملک کی کپتانی کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔

ناصر حسین کے علاوہ اویس شاہ، ساجد محمود، کبیر علی بھی قومی ٹیم کی نمائندگی کر چکے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو اس درجے کی کامیابی نہیں ملی جو ناصر حسین کو ملی تھی۔ راجکوٹ میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں شامل ان چار کھلاڑیوں میں سے ایک، ظفر انصاری نے محض 25 برس کی عمر میں تین ٹیسٹ کھیلنے کے بعد ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا جبکہ 19 سال میں ڈیبیو کرنے والے حسیب حمید انجری کے باعث ایک سال سے کرکٹ نہیں کھیل سکے ہیں۔
لیکن دوسری جانب معین علی انگلینڈ کرکٹ کے نئے پوسٹر بوائے کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں اور اس سال کھیلے گئے آٹھ ٹیسٹ میچوں میں انھوں نے 361 رنز بنائے ہیں اور 30 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ لیگ سپنر عادل راشد بھی ٹیم کا مستقل حصہ رہے ہیں۔

عادل راشد اور بالخصوص معین علی کی واضح کامیابی کے باوجود انگلینڈ کرکٹ چلانے والوں کو اس بات کا احساس ہے کہ جنوبی ایشیائی نژاد برطانوی نوجوان کرکٹ کھیلتے ضرور ہیں لیکن وہ بنیادی درجے تک محدود رہتے ہیں اور بہت کم تعداد میں کھلاڑی کرکٹ کو بطور پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ بی بی سی ایشین نیٹ ورک کے ریڈیو پروگرام کے میزبان انُکر ڈیسائی نے راجکوٹ میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں شامل معین علی، عادل راشد، حسیب حمید اور ظفر انصاری سے اس حوالے سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی کرکٹ کھیلنے کے لیے حوصلہ افزائی کیسے کی جا رہی ہے اور یہ چاروں کھلاڑی کس طرح اگلی نسل کے کھلاڑیوں کے لیے رول ماڈل بن سکتے ہیں۔

برمنگھم میں مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے معین علی نے انکر ڈیسائی کو بتایا کہ انھیں بچپن سے ہی کرکٹ کا شوق تھا جسے دیکھتے ہوئے ان کے والد نے انھیں کرکٹ پر توجہ دینے کی ترغیب دی۔ ‘میرے والد نے مجھ سے کہا کہ 13 سے 15 کی عمر میں تم کرکٹ پر توجہ دو اور اس کے بعد جو دل چاہے کرو‘۔
یارک شائر سے تعلق رکھنے والے لیگ سپنر اور معین علی کے قریبی دوست عادل راشد نے اپنے بچپن کے بارے میں بتایا کہ انھیں بھی کرکٹ کھیلنے کے لیے اپنے گھر والوں کی حمایت ملی۔ ایک سوال کے جواب میں عادل راشد نے کہا کہ ‘میرے والد رات بھر ٹیکسی چلاتے تھے لیکن صبح سات بجے گھر آنے کے بعد وہ مجھے نو بجے کرکٹ کھیلنے کے لیے میدان میں لے جاتے تھے اور پورا پورا دن میرے ساتھ رہتے تھے۔ انھوں نے میرے لیے اپنا بہت وقت قربان کیا‘۔

لیکن عادل راشد اپنی کامیابیوں کے باوجود اپنے ماضی کو نہیں بھولے ہیں اور نئی نسل کے کھلاڑیوں کی آسانی کے لیے انھوں نے کرکٹ اکیڈمی قائم کی ہے تاکہ جنوبی ایشیائی نژاد نوجوان کرکٹ وہاں کھیل سکیں۔ ‘اسے قائم کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ ان بچوں کو معیاری کرکٹ کھیلنے کا موقع ملے تاکہ وہ مستقبل میں بہتر کھیل پیش کر سکیں‘۔ معین اور عادل کی طرح چھوٹی عمر سے کرکٹ شروع کرنے والے حسیب حمید نے 19 برس کی عمر میں اپنا پہلا میچ کھیلا اور عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ معین علی، عادل راشد اور حسیب حمید کے ساتھ کھیلنے سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

لیکن ان تینوں کھلاڑیوں کے برعکس ظفر انصاری نے صرف تین ٹیسٹ میچوں میں شرکت کے بعد 25 برس کی عمر میں کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ کیمبرج یونیورسٹی سے پڑھائی مکمل کرنے والے ظفر انصاری نے انکر ڈیسائی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کافی عرصے سے کرکٹ کو چھوڑنے کا سوچ رہے تھے اور انھیں اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کرکٹ کے لیے وقف نہیں کر سکتے۔ انھیں اس بات پر مزید پختہ یقین گذشتہ سال ہونے والے امریکی انتخابات کے دوران ہوا جب وہ راجکوٹ کا ٹیسٹ کھیل رہے تھے۔ ‘کرکٹ کی وجہ سے ہمارے پاس فون نہیں تھے اور ہمیں کرکٹ پر توجہ دینی تھی لیکن میرا دل انتخابات کے نتائج پر تھا یہ جاننے کے لیے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے‘۔

ظفر انصاری اس لحاظ سے باقی تین کھلاڑیوں سے مختلف ہیں کیونکہ ان کے والد پاکستانی اور والدہ انگریز ہیں اور وہ دونوں تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ‘مجھے اندازہ ہے کہ میرا پس منظر ان تینوں سے مختلف ہے لیکن ان کے ساتھ کرکٹ کھیل کر مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے‘۔ تحقیق کے مطابق برطانیہ میں تفریحی کرکٹ کھیلنے والے 40 فیصد بچے ایشیائی نژاد ہیں لیکن ان میں سے صرف چار فیصد ہیں جو کرکٹ کو پیشہ ورانہ طور پر اختیار کرتے ہیں۔
معین علی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بحیثیت ایشیائی برطانوی مسلمان ان بچوں کی رہنمائی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثر بدلنا چاہتے ہیں اور اپنے کھیل اور کردار سے دکھانا چاہتے ہیں کہ ‘آپ مذہب اور کھیل دونوں ساتھ چلا سکتے ہیں‘۔

بشکریہ بی بی سی اردو

 

معین علی کی تاریخی کارکردگی

انگلینڈ کے آل راؤنڈر معین علی نے 2016 میں ٹیسٹ کرکٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام جنوبی افریقہ کے سابق آل راؤنڈر کیلس اور انگلینڈ کے آئن بوتھم کے ساتھ درج کروا لیا ہے۔ 2016 میں معین علی ٹیسٹ کرکٹ میں 1000 رنز اور 30 وکٹیں حاصل کرکے ایک سال میں یہ کارنامہ انجام دینے والے تیسرے آل راؤنڈر بن گئے ہیں۔ کرکٹ ڈاٹ کام اے یو کے مطابق معین علی نے ہندوستان کے خلاف پانچویں ٹیسٹ میں ایشانت شرما کی گیند پر رن لے کے یہ اعزاز حاصل کیا اور سابق مشہور آل راؤنڈر کیلس اور بوتھم کی فہرست میں شامل ہوگئے۔
بوتھم پہلے کھلاڑی تھے جنھوں نے 1982 میں ایک سال کے دوران ٹیسٹ کرکٹ میں 47 وکٹوں کے ساتھ ساتھ ایک ہزار 95 رنز بنانے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
جنوبی افریقہ کے کیلس 2001 میں ایک ہزار 120 رنز بنانے کے علاوہ 35 وکٹیں حاصل کرنے والے دوسرے کھلاڑی بن گئے تھے۔ تاہم اگر تینوں کھلاڑیوں کا موازنہ کیا جائے تو معین علی نے اس ایک سال کے دوران زیادہ میچ کھیلے ہیں، بوتھم نے 1982 میں 13، کیلس نے 2001 میں 14 ٹیسٹ کھیلے تھے جبکہ معین علی نے انگلینڈ کی جانب سے 2016 کے تمام 17 میچوں میں نمائندگی کی۔
معین علی نے آسٹریلیا، پاکستان، جنوبی افریقہ، سری لنکا اور انڈیا سمیت تمام بڑی ٹیموں کے خلاف کھیل کر سال کے آخر میں ایک ہزار 78 رنز بنائے جبکہ ہندوستان کے خلاف دورے میں دو سنچریاں بنانے والے سرفہرست انگلش بلےبازوں میں بھی شامل ہو گئے تھے۔
معین علی 2016 میں ایک ہزار سے زیادہ رنزبنانے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہیں جبکہ اس فہرست میں انگلینڈ کے کھلاڑیوں کا راج ہے۔
انگلینڈ کے جوروٹ اس فہرست میں اب تک 1477 رنز بنا کر سہرفہرست ہے، انگلینڈ کے ہی جونی بیئراسٹو 1470 رنز بنا کر دوسرے، کپتان الیسٹر کک 1270 رنز بنا کر تیسرے نمبر پر موجود ہیں۔ ہندوستانی ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے 2016 میں 1215 رنز بنائے اور چوتھے نمبر پر موجود ہیں۔ پاکستان ٹیم کے نائب کپتان اظہرعلی 950 رنز بنا کر اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہیں اور انھیں آسٹریلوی کپتان پر برتری حاصل ہے جنھوں نے 914 رنز بنا رکھے ہیں۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان رواں سال کا آخری ٹیسٹ میچ 26 دسمبر کو شروع ہوگا جہاں دونوں کھلاڑی اپنی پوزیشن کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ پاکستانی بلےبازوں میں اسد شفیق نے 10 میچوں میں 667 رنزاور یونس خان نے 628 رنز بنائے اور سمیع اسلم 607 رنز بنا کر نمایاں ہیں

ایک’ کُول‘ کپتان کی حوصلہ مند ٹیم

آج کا دن لندن کے سینٹ جانز وُڈ کے علاقے میں ایک ایسا دن تھا کہ جب آپ کسی
کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ سینٹ جانز وُڈ میں واقع دنیائے کرکٹ کے سب سے تاریخی میدان میں آج پاکستان اپنی اس فارم میں نظر آیا جو دنیا بھر میں اس ٹیم کی پہچان ہے، یعنی وہ پاکستانی ٹیم جس میں مہارت بھی ہوتی ہے، چالبازی بھی، جس میں گھورتی آنکھیں بھی ہوتی ہیں اور مسکراہٹیں بھی اور خوش قسمتی کے ساتھ ساتھ خطروں سے کھیلنے کا حوصلہ بھی ہوتا ہے۔

آج کرکٹ کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی میچ جس میں تین بڑی ٹیموں (آسٹریلیا، انڈیا اور انگلینڈ) میں سے کوئی ٹیم نہ کھیل رہی ہو، اسے کوئی میچ ہی نہیں سمجھتا۔ اس کے بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوہ ہمالیہ سر کیا ہو لیکن کرکٹ کی دنیا اس وقت تک اس کی تعریف نہیں کرتی آپ کوگھاس نہیں ڈالتی جب تک آپ ان تین بڑی ٹیموں میں سے کسی کو نہ ہرائیں۔
دنیا کی ساری توجہ انھی تین ممالک پر مرکوز رہتی ہے اور کرکٹ سے منسلک سارا پیسہ بھی ان ہی ممالک میں ہے۔

مصباح الحق نے اپنی ٹیم کی قیادت اس وقت سنبھالی جب یہ ٹیم آخری مرتبہ لارڈز کے میدان میں کھیلی تھی۔ یہ ٹیم متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں ایک ناقابل شکست ٹیم بن چکی ہے، لیکن اس کے باوجود اسے زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ اس لحاظ سے پاکستان کا یہ دورہ انگلینڈ اہم ہونا تھا کیونکہ اس دورے میں انھیں یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستانی ٹیم بھی ایک ٹیم ہے۔ اگر یہ ٹیم انگلینڈ سے جیت کر دکھا دیتی ہے تو پھر اسے تسلیم کیا جائے گا اور اس کی تعریف کی جائے گی۔ مصباح کی حالیہ ٹیم کی تشکیل سنہ 2014 میں اس وقت ہونا شروع ہوئی تھی جب سعید اجمل اور محمد حفیظ پر مکمل پابندی لگ گئی اور پاکستان کا بالنگ اٹیک بالکل بدل کر رہ گیا تھا۔ تب پاکستان نے اجمل کی جگہ جس بولر کو ٹیم میں شامل کیا وہ فوراً ہی دنیا کا بہترین سپنر بن گیا۔

ان دنوں مصباح کے پاس ٹیم میں شامل کرنے کے لیے تیز بالر بہت کم تھے لیکن اس دوران راحت علی اور عمران خان دونوں نے محنت جاری رکھی اور اپنی مہارت میں اضافہ کرتے رہے اور پھر ایک سال بعد وہاب ریاض کی شکل میں مصباح کو ایک اور اچھا تیز بولر مل گیا، ایک ایسا بولر جو مخالت بیٹنگ لائن کو اُڑا کر رکھ سکتا ہے۔ اور اس کے بعد محمد عامر ٹیم میں واپس آگئے اور پاکستان کے بولنگ اٹیک میں یکدم تیزی آگئی۔ پاکستان کے اس بولنگ اٹیک کے لیے انگلینڈ کی ساری ٹیم کو آؤٹ کرنے کے لیے صرف ایک دن کافی تھا۔ آج جس طرح پاکستانی بولر ایک ٹیم کی شکل میں کھیلے، اسے دیکھ کر لطف آگیا۔
انگلینڈ کی تمام وکٹیں چوکے، چھکے لگاتے ہوئے نہیں گریں، بلکہ ہر وکٹ گرنے سے پہلے کی گیندوں پر انگلینڈ کے بلے باز کوئی رن نہیں بنا پائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے انگلینڈ کے نئے آنے والے بلے باز کو آؤٹ کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ کارگر ثابت ہوا۔ یہی وہ پاکستانی ٹیم ہے جس سے ایک دنیا محبت کرتی رہی ہے۔ ایک ایسی ٹیم جو مخالف بلے باز کو جب تک پویلین واپس نہیں بھیج دیتی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اس کے باوجود آج پاکستان کی جو ’روایتی‘ ٹیم ہم نے لارڈز میں دیکھی اس میں ایک فرق واضح تھا اور وہ یہ کہ اس ٹیم کی کپتانی مصباح کے ہاتھ میں تھی۔
یہ سال کپتان کے لیے زبردست سال رہا ہے۔ اس سال کے شروع میں انھوں نے پی ایس ایل کی پہلی ٹرافی جیتی اور سال کے آخر میں آخر کار انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ اتنی خوبصورت داڑھی میں بہت ’ُکول‘ لگتے ہیں۔ پاکستان یہ میچ اسی وقت جیت گیا تھا جب سینچری بنانے کے بعد کپتان نے میدان میں ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تھے، کیونکہ اپنے کپتان کی خوشی اور ان کا اعتماد دیکھ کر ٹیم کے حوصلے مزید بلند ہو گئے تھے۔ اسی لیے میچ جیتنے کے بعد جب ساری ٹیم نے ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تو اس پر کسی کو بھی زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔
یہ لمحہ واقعی بہت خوبصورت، حیرت انگیز اور مسرت سے بھرپور لمحہ تھا۔
چھ سال پہلے مصباح الحق سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک ٹوٹی پھوٹی ٹیم کو آ کر سنبھالیں اور آج چھ سال بعد انھوں نے پاکستان کو ایک ایسی ٹیم دے دی ہے جو ماضی کی کسی بھی بہترین پاکستانی ٹیم سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہے۔
احمر نقوی
سپورٹس تجزیہ کار

بیس برس بعد پاکستانی بولر عالمی رینکنگ میں سرفہرست

انگلینڈ کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میچ میں دس وکٹیں لینے والے پاکستانی لیگ سپنر
یاسر شاہ آئی سی سی کی ٹیسٹ بولروں کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر آ گئے ہیں۔ یاسر شاہ نے انگلینڈ کے خلاف پہلی اننگز میں 72 رنز کے عوض چھ وکٹیں اور دوسری اننگز میں 69 رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس شاندار پرفارمنس کے باعث وہ 32 پوائنٹس حاصل کر کے رینکنگ میں چوتھے نمبر سے پہلے نمبر پر آ گئے ہیں۔ یاسر شاہ تقریباً 20 سال میں پہلے پاکستانی بولر ہیں جو آئی سی سی کی رینکنگ میں سرفہرست آئے ہیں۔

اس سے قبل 1996 میں لیگ سپنر اور پاکستان کے موجودہ بولنگ کوچ مشتاق احمد آئی سی سی کی درجہ بندی میں پہلے نمبر آئے تھے۔ یاسر شاہ گذشتہ 11 برس میں ایسے پہلے لیگ سپنر بھی ہیں جو اس درجہ بندی میں سب سے اوپر پہنچے ہیں۔ ان سے قبل آسٹریلیا نے شین وارن سنہ 2005 میں دنیا کے بہترین ٹیسٹ بولر قرار دیے گئے تھے۔ آئی سی سی رینکنگ کے مطابق یاسر شاہ 878 پوائنٹس کے ساتھ پہلے اور انڈیا کے روی چندرن ایشون 871 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں جبکہ انگلینڈ کے جیمز اینڈرسن کا نمبر تیسرا ہے۔

آئی سی سی کی پریس ریلیز کے مطابق 30 سالہ یاسر شاہ کے پوائنٹس میں مزید اضافے کا امکان ہے کیونکہ وہ ابھی کوالیفائنگ پیریڈ میں ہیں۔ واضح رہے کہ بولر کی فُل رینکنگ اس وقت کی جاتی ہے جب وہ 100 وکٹیں حاصل کر لے۔

26 اکتوبر 2014 کو اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے یاسر شاہ نے اس وقت 13 ٹیسٹ میچوں میں 86 وکٹیں حاصل کی ہیں جو کہ اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔
آئی سی سی کی درجہ بندی میں یاسر شاہ کے علاوہ پاکستان کے راحت علی 35 ویں نمبر سے 32 ویں نمبر جبکہ چھ سال بعد انٹرنیشنل ٹیسٹ کھیلنے والے محمد عامر 93 ویں نمبر پر ہیں۔
جہاں تک بیٹنگ کی رینکنگ کی بات ہے تو پاکستان کے اسد شفیق 13 ویں سے 11 ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ انھوں نے لارڈز ٹیسٹ میں 73 اور 49 رنز سکور کیے۔
پاکستان کے کپتان مصباح الحق اپنی سنچری کے باعث 10 ویں سے نویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں جبکہ سرفراز احمد 17 ویں پوزیشن پر آ گئے ہیں۔

لارڈز کی تاریخی جیت ایدھی کے نام

پاکستانی کپتان مصباح الحق نے انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی کو
فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کے نام کیا ہے۔ بی بی سی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے مصباح الحق نے کہا کہ’ ایدھی صاحب نے جو ہمارے لیے کیا ہے، کامیابی ان کے نام کرنا پاکستانی قوم کی جانب سے انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہے۔‘انھوں نے کہا کہ لارڈز میں جیت بحیثیت کپتان ان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ ’لارڈز کے تاریخی گراؤنڈ میں جیتنا کسی بھی کپتان کے لیے ایک سپیشل وکٹری ہوتی ہے اور میرے لیے بھی آج کا دن تاریخی ہے۔‘

بعدازاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصباح الحق نے توقع ظاہر کی کہ پاکستانی ٹیم سیریز کے اگلے میچز میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔
مصباح الحق نے یہ بھی کہا کہ ہم جیت تو گئے ہیں تاہم ہمیں بیٹنگ میں ڈسیپلن کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً شارٹس سلیکشن کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔‘پاکستان میں ٹیلنٹ ہے ہی نہیں شاہد آفریدی کے اس بیان پر مصباح الحق نے کہا کہ یہ آفریدی کا ذاتی تجزیہ ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں موجود ٹیلینٹ کو ورلڈ کلاس لیول پر لانے کے لیے مزید پالش کرنے کی ضرورت ہے۔

لارڈز ٹیسٹ کے ٹرننگ پوائنٹس کونسے تھے؟

اس سوال کےجواب میں مصبالح الحق نے کہا کہ ’پہلی اننگز کی برتری اور دوسری اننگز میں اسد شفیق اور سرفراز کی پارٹنرشپ میچ کے ٹرننگ پوائنٹس تھے۔‘ فتح کے بعد پاکستانی ٹیم گراؤنڈ میں اس بار سجدوں کے بجائے ہمیں پش اپس اور سلیوٹ کرتی دکھائی دی۔ مصباح الحق نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پش اپس اور سلیوٹ ان پاکستانی فوجی جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیے گئے ’جو اپنی کم تنخواہوں پر ملک و قوم کے لیے زندگی قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ فوجی جوانوں نے برطانیہ کے دورے سے قبل پاکستان آرمی کے زیرِاہتمام ہونے والے ٹریننگ کیمپ میں قومی ٹیم کی بہت مدد کی تھی۔
عادل شاہ زیب
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

یاسر شاہ عالمی نمبر ایک ٹیسٹ باؤلر بن گئے

لارڈز ٹیسٹ میں دس وکٹیں لے کر پاکستان کو انگلینڈ کے فتح سے ہمکنار کرانے
والے یاسر شاہ کو شاندار باؤلنگ کا انعام مل گیا ہے اور ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر فائز ہو گئے ہیں۔ لارڈز ٹیسٹ میچ شروع ہونے سے قبل پاکستانی لیگ اسپنر عالمی درجہ بندی میں چوتھے درجے پر موجود تھے تاہم انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں دس وکٹیں لے کر وہ عالمی نمبر ایک باؤلر بن گئے ہیں۔

پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف پہلی اننگ میں 339 رنز بنائے لیکن یاسرشاہ نے 6 وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو پہلی اننگز میں لیڈ دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری اننگ میں 30 رنز کی اہم باری کھیلنے والے یاسر شاہ نے جہاں اسکور کو معقول مجموعے تک پہنچایا تو دوسری اننگ میں بھی یاسرکی بل کھاتی گیندوں کا انگلش بلے بازوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، یاسرشاہ نے دوسری اننگز میں 4 کھلاڑیوں کا شکار کیا۔

میچ میں دس وکٹوں کی بدولت وہ نا صرف بہترین کھلاڑی کا اعزاز جیتنے میں کامیاب رہے بلکہ ساتھ ساتھ 878 رینکنگ پوائنٹس کے ساتھ عالمی نمبر ایک باؤلر بھی بن گئے ہیں۔ یاسر شاہ گزشتہ 20 سال میں عالمی نمبر ایک باؤلر بننے والے پہلے پاکستانی باؤلر ہیں جہاں اس سے قبل دسمبر 1996 میں مشتاق احمد اس منصب پر فائز ہوئے تھے ۔ وہ 2005 کے بعد یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے لیگ اسپنر ہیں، اس سے قبل دسمبر 2005 میں شین وارن نے یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ وہ ناصرف پاکستان بلکہ ایشیا کے واحد باؤلر ہیں جس نے لارڈز میں دس وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔

یاسر کے ساتھ ساتھ دونوں اننگ میں عمدہ بلے بازی کرنے والے اسد شفیق بھی دو درجہ ترقی کر کے 11 نمبر پر پہنچ گئے ہیں جبکہ سرفراز کی بھی ترقی ہوئی ہے اور وہ 17ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ تاہم یونس خان تنزلی کے بعد چھٹے نمبر پر چلے گئے ہیں جبکہ مصباح الحق نویں نمبر پر موجود ہیں۔ انگلینڈ کی جانب سے 11 وکٹیں لینے والے کرس ووکس نے 28 درجے ترقی کی اور وہ عالمی رینکنگ میں کیریئر کی بہترین 36ویں پوزیشن پر براجمان ہو گئے ہیں جبکہ بیئراسٹو بھی دو درجہ ترقی کے بعد کیریئر کی بہترین 16ویں پوزیشن پر پہنچ گئے ہیں۔