میانداد اور آفریدی آمنے سامنے

پاکستان کرکٹ میں تنازعات کوئی نئی چیز نہیں،کھلاڑیوں کے مابین اختلافات بھی ہمیشہ رہے ہیں، کبھی یہ ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں تو کبھی پیشہ وارانہ، پیشہ وارانہ رقابت کا تو فائدہ کھیل کے میدان میں ہوتا ہے جیسا کہ وسیم اکرم اور وقار یونس کے مابین تعلقات کشیدہ تھے تو دونوں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لمبی بالنگ کرنے اور زیادہ وکٹیں لینے کی کوشش کرتے تھے اس مسابقت کا فائدہ پاکستان ٹیم کو ہوتا تھا اسی طرح سعید انور اور عامر سہیل بھی ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہوئے زیادہ رنز بنانے کی کوششوں میں رہتے تھے اس مقابلہ بازی میں بھی فائدہ قومی ٹیم کا ہی ہوتا تھا۔ بعض کرکٹرز تو لمبی کرکٹ اور بہتر کاکردگی کے لیے اپنی ذات سے ہی مقابلہ کیے رکھتے تھے۔ اس فہرست میں خاصے کھلاڑی ہیں اور اس قسم کی مقابلہ بازی پر یقین رکھنے والوں نے ناصرف لمبی کرکٹ کھیلی بلکہ تاریخی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ حنیف محمد  فضل محمود، امتیاز احمد، اے ایچ کاردار سے شروع ہونیوالا یہ سفر آج بھی مصباح الحق اور یونس خان کی موجودگی میں جاری ہے۔

مختصر یہ کہ پیشہ وارانہ مقابلہ بازی کا فائدہ اور ذاتی اختلافات کا ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔ ان دنوں بھی پاکستان کرکٹ میں دو کھلاڑیوں کے مابین الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ اس مرتبہ جاوید میانداد اور شاہد آفریدی آمنے سامنے ہیں۔ ماضی کیطرح بیانات کی اس جنگ کا بھی نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا اگر نقصان ہوا تو وہ صرف پاکستان کا ہی ہو گا۔ قومی سطح پر نفرت بڑھے گی اور بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ خراب ہو گی۔ جاوید میانداد نے تو آفریدی پر میچ فکسنگ کے بھی الزامات لگائے ہیں۔ یہ الزامات بہرحال سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو جاوید میانداد کے الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس معاملہ پر گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی اطلاعات آ رہی ہیں کہ آفریدی نے اس معاملے پر جاوید میانداد کو قانونی نوٹس بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

گذشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے خاصی بحث جاری ہے دونوں کھلاڑیوں کے پرستار اپنے اپنے پسندیدہ کرکٹرز کا دفاع کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں یہ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات ہے کہ اپنے ہی ملک کے کھلاڑیوں کو اپنے ہی لوگ بڑا بھلا کہنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں ہیں۔ دونوں کے پرستار اپنے پسندیدہ کرکٹرز کو لیجنڈ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں مثالی، تاریخی اور ناقابل فراموش کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالوں کو لیجنڈ کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں ٹیسٹ کرکٹ کے ریکارڈز کو ہمیشہ سے اہمیت دی جاتی رہی ہے اور دی جاتی رہے گی۔ جہاں تک کھیل کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جاوید میانداد حقیقی معنوں میں ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتے ہیں ایک روزہ اور ٹیسٹ کرکٹ میں انکے کارنامے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں انہوں نے متعدد مواقع پر پاکستان کو تن تنہا فتح دلائی اور متعدد مواقع پر ٹیم پاکستان کو شکست سے بھی بچایا۔
انہوں نے 124 ٹیسٹ میچوں کی 189 اننگز میں 8832 رنز 57•52 کی اوسط سے سکور کیے ہیں جبکہ 233 ون ڈے میچوں کی 218 اننگز میں 7318 رنز 70•41 کی اوسط سے سکور کر رکھے ہیں۔ انکی بہت سی انفرادی اننگز یادگار اور تاریخی اہمیت کی بھی حامل ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین اور مبصرین انہیں ایک بہترین کرکٹر کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ دوسری طرف شاہد آفریدی ہیں انہوں نے بھی چند ایک عالمی ریکارڈز اپنے نام کر رکھے ہیں۔ کئی ایک کامیابیاں انکی وجہ سے بھی پاکستان کو ملیں۔ 2009 کی ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی چیمپئن شپ میں ان کی تحمل مزاجی سے بلے بازی نمایاں ہے لیکن اس ٹورنامنٹ میں کامران اکمل بھی ٹاپ سکورر رہے۔ اسکے علاوہ انفرادی طور پر محدود اوورز کی کرکٹ میں انہوں نے کئی ایک کامیابیاں تن تنہا دلائی ہیں۔ شاید آفریدی کے 27 ٹیسٹ میچوں کی 48 اننگز میں صرف 1716 رنز ہیں۔ 398 ون ڈے میچوں کی 369 اننگز میں 57•23 کی اوسط سے 8064 رنز سکور کیے ہیں اور ان میچوں میں بالنگ کرتے ہوئے 395 وکٹیں بھی حاصل کر رکھی ہیں۔ 
سو اس کارکردگی پر لیجنڈ قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں اسکا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑے دیتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان میں عوامی سطح پر شاہد آفریدی کی مقبولیت جاوید میانداد سے زیادہ ہے لیکن کیا عوامی مقبولیت لیجنڈ کا درجہ دینے کا پیمانہ ہے یا پھر اسکا فیصلہ کھیل کا میدان کرتا ہے۔ جہاں تک تعلق شاید آفریدی کے فئیر ویل کا ہے تو اس معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے پاکستان سپر لیگ کے دوران اس حوالے سے کوئی تقریب متوقع ہے۔ شاہد آفریدی ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی چیمپئن شپ کو اپنا آخری ٹورنامنٹ قرار دے چکے تھے پھر انہوں نے عزت سے ریٹائرمنٹ کا وہ موقع ضائع کیوں کیا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ عوام کے سوا کسی کو جوابدہ نہیں۔ 
کیا انہیں سلیکٹ کسی عوامی سلیکشن کمیٹی نے کہا تھا، کیا وہ دنیا بھر میں کرکٹ عوام کے خرچے پر کھیلتے رہے،کیا انہیں میچوں کا معاوضہ کوئی عوامی نمائندہ دیتا رہا؟؟؟؟ یہ وہ تضادات ہیں جس وجہ سے شاہد آفریدی ایک مرتبہ پھر متنازعہ ہوئے ہیں اور انہوں نے خود ناقدین کو مختلف پہلووں پر غور کرنے اور بات کرنیکا موقع فراہم کیا ہے۔ ہماری رائے میں پاکستان کرکٹ بورڈ سے منسلک ہر کرکٹر اپنی کارکردگی کے بارے میں سب سے پہلے پی سی بی کو جوابدہ ہے کیونکہ اس بارے فیصلہ کرنیکا مجاز ادارہ وہی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ شاہد آفریدی ہی کیا جاوید میانداد نے بھی کھیل کے میدانوں کو قابل عزت انداز سے الوداع نہیں کہا۔ ماہرین کے مطابق جاوید میانداد نے بھی 1996 کا عالمی کپ زبردستی کھیلا۔
اگر بات کرکٹرز کے حوالے سے کی جائے تو کوئی بھی کھلاڑی کھیل سے بڑا نہیں ہوتا اور جو کچھ ان کرکٹرز نے ملک کو دیا ہے اس ملک نے ان کھلاڑیوں کو اس سے بہت بڑھکر دیا ہے۔ عزت، دولت، شہرت، نام، مقام، مرتبہ اور پرتعیش زندگی یہ سب اس ملک کی ہی دیں ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ بیان بازی کرنے سے پہلے ذرا اس ملک کی عمارتوں پر یہ کچھ غور فرما لیا کریں۔ جاوید میانداد اور شاہد آفریدی کا حالیہ جھگڑا تکلیف دہ واقعات میں ایک اور اضافہ ہے۔
حافظ محمد عمران

Leave a comment