کرکٹ کیلئے صرف دعائیں کب تک؟

’’فیدا کی(کیا فائدہ)؟!‘‘ والی نظم آپ نے بھی سن رکھی ہوگی۔ یک سطری مفہوم
اس عوامی نظم کا یہ ہے کہ دل میں آئی بات کو برملا کہہ دوں تو اس کے بعد جسم پر لگے زخموں کو بس سہلاتا ہی رہوں گا۔ اس کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔ لہذا ’’فیدا کی؟‘‘

یہ الگ بات ہے کہ اپنی بے بسی کا واضح اعتراف کرتے ہوئے شاعر نے بڑی مہارت سے یہ مصرعہ بھی لکھ ہی ڈالا کہ ’’پلس نوں جو میں آکھاں…‘‘سچ بول کر بھی سچ بولنے کی ہمت نہ رکھنے کا ڈھونگ مگر کوئی صاحب کمال شاعر ہی رچاسکتا ہے۔ کم از کم مجھ ایسے ذات کے رپورٹر کو یہ ہنر ہرگز نصیب نہیں ہوا۔
جنرل مشرف کسی ایئرایمبولینس میں نہیں معمول کی ایک پرواز کے ذریعے کراچی سے دبئی پہنچ گئے ہیں۔

 وہاں پہنچتے ہی انہوں نے احباب کو اپنے شاندار دکھتے ڈرائنگ روم میں صلاح ومشورے کے لئے طلب کیا۔ پاکستان میں قیام کے دوران ان کی آخری تصویر جو دیکھی اس میں سابق صدر سانس لینے کے لئے آکسیجن کے محتاج نظر آرہے تھے۔ دوبئی پہنچنے تک ان کے پھیپھڑوں میں اتنی آکسیجن جمع ہوگئی تھی کہ ضرورت سے زیادہ جمع ہوئی مقدار کو خرچ کرنے کے لئے سگار کو سلگانا پڑا۔ربّ کریم انہیں اس شان کے ساتھ دشمنوں کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑکانے کو زندہ وسلامت رکھے۔

ان کی روانگی کے بعد شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ٹی وی سکرینوں پر جرأت وبہادری کی علامت بنے اینکرخواتین وحضرات اور میری طرح اخباری کالموں کے ذریعے بقراطی فرماتے ہوئے لوگوں کی سیاپا فروشی سے تاثر کچھ ایسا ملا کہ قوم ہماری آئین اور قانون کی بالادستی وغیرہ کے ضمن میں بہت فکر مند ہے۔ اسے دُکھ ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان میں قانون ابھی تک سب کو برابر نہیں سمجھتا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قصہ برقرار ہے۔

آئین اور قانون کی محبت میں دیوانہ ہوکر سینہ کوبی کرتے خواتین وحضرات کی حالتِ زار دیکھ کر ’’یہ دل -یہ پاگل دل میرا‘‘ کئی بار مچلا کہ قلم اٹھائوں اور جو کچھ دل میں ہے سب لکھ ڈالوں۔ شاعر کا مگر شکریہ۔ ’’فیدا کی؟‘‘ دماغ میں گونجنا شروع ہوگیا۔ پاسبان عقل شاید دل کی نگہبانی سے بالآخر تھک ہی جاتا مگر کام آگیا وہ میچ جو ہفتے کی شام کولکتہ کے ایڈن گارڈن میں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین ہوا۔
کئی بار اعتراف اس کالم میں کرچکا ہوں کہ مجھے کرکٹ کے معاملات کا ککھ پتہ نہیں۔ بچپن میں ریڈیو پر ’’تھینک یو عمر‘‘ والی کمنٹری بے تحاشہ سنی ہے۔ اسے سنتے ہوئے اپنے محلے کے ایک تندور کے باہر دیوار میں سیمنٹ اور سیاہ رنگ سے بنائے ’’بورڈ‘‘ پر تازہ ترین احوال بھی رنگین چاکوں کی مدد سے لکھتا رہا اور پھر غمِ روزگار نے دوسرے دھندوں میں مشغول کردیا۔
ہفتے کی شام مگر پاک-بھارت ٹاکرے سے مفر ممکن ہی نہ تھا۔ ٹی وی کو آف رکھ کر کمپیوٹر کھولوں تب بھی ہر App پر موجود پایا قندیل بلوچ کو ۔غیرت کے نام پر کبھی کبھار قتل کردینے کی عادت میں مبتلا میرے معاشرے میں اس خاتون نے قومی ٹیم اور خاص کر اس کے کپتان کے دل میں فتح کی جوت جگانے کے لئے جو کچھ کہا اسے لاہور کی گلیوں والی ’’آخیر‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے ۔
میچ شروع ہوا تو ٹی وی کے ساتھ ٹویٹر اکائونٹ بھی کھول لیا۔ انٹرنیٹ نے ہر شعبے کے ’’ماہرین‘‘ بھی پیدا کردئیے ہیں۔ انہیں ہر موقعہ کی غزل منہ زبانی یاد ہوتی ہے۔ میچ کے دوران ان’’ماہرین‘‘ کی تبصرہ آرائی سے مسلسل رجوع کرتا رہا۔ ایسا کرتے ہوئے اپنے اس رویے کی بابت بہت تسکین محسوس ہوئی جس کی وجہ سے کبھی کبھار اپنی ’’وکھری ٹائپ‘‘ سوچ پر ڈٹ جانے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اشتہاری کمپنیوں کو مگر پھر بھی سلام۔ انہیں رونق لگانے کا ہنرخوب آتا ہے۔
اپنی اصل میں کرکٹ شاید کبھی دُنیا کا وہ واحد کھیل تھا جہاں جیت ہی حتمی ہدف نہیں ہوا کرتی تھی۔ پانچ دنوں تک پھیلا ایک مقابلہ جو اکثر Draw پر ختم ہوتا۔ اپنی انتہا تک پہنچ کر سرمایہ دارانہ نظام نے مگر اس کھیل کو بھی ’’تخت یا تختہ‘‘ کی صورت دے ڈالی۔ آسٹریلیا کے کیری پیکر نے اس کھیل کو اناپرستی کے جنون میں مبتلا ذہنوں کی تسکین کا ذریعہ بنانے کا چلن ڈالا۔ بات One Dayسے شروع ہوکر T-20تک محدود ہوگئی۔ رونق لگ گئی۔
ایک زمانہ تھا کہ جب جیت کے جنون میں مبتلا ہوئے کسی فرد کی حرکات کو This is not Cricket کہہ کر حقارت سے ٹھکرادیا جاتا تھا۔ اب اس کھیل کو لیکن ایک حوالے سے انسان نہیں ’’ٹائیگر‘‘ یا ’’شاہین‘‘ کھیلتے ہیں۔ Draw کی کوئی گنجائش باقی ہی نہیں رہ گئی۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہوتا ہے اور اس مقابلے سے نبردآزما ہونے کے لئے درکار ہوتے ہیں فولادی اعصاب۔ اعصاب کو فولاد بنانے کے لئے ضرورت ہے مگر کڑے ضابطوں اور تنظیم سازی کی ریاضتوں کی۔جیت کی لگن میں ریاضت سے زیادہ ہم البتہ قوم کی دُعائوں کے طلب گار ہوتے ہیں۔ قوم ہماری دُعائیں بھی بہت خلوص اور دل وجان سے دیتی ہے۔ دُعا مگر دوا ور تدبیر کا متبادل ہو ہی نہیں سکتی۔
ایڈن گارڈن کا ماحول ہمارے اعصاب پر انگریزی والے Word “Go”کے ساتھ ہی حاوی ہوچکا تھا ۔ یہ پیغام دیا مجھے شفقت علی خان نے۔ کلاسیکی حوالے سے وہ موسیقی کے ایک بہت ہی ہنر مند گھرانے کا نمائندہ ہے۔ ’’ترانہ‘‘ اس گھرانے میں خیال کے آخری لمحات میں صرف جگل بندی اور تان پلٹے ہوتے ہیں۔ ’’قومی ترانہ‘‘ رجز ہے جسے بنیادی طورپر گایا نہیں ادا (Render)کیا جاتا ہے۔ ماتھے پر پسینے کے قطروں کے ساتھ گھبرائے ہوئے شفقت علی خان بے چارے نے مگر اسے ’’گانے‘‘ کی کوشش کی اور کم از کم دو مقامات پر اس سے چوک بھی ہوگئی۔ اس کے بعد بھارتی ترانہ پڑھنے کو کھڑا ہوا ایک منجھا ہوا کلاکار ۔Mega Eventsکو سنبھالنے کے حوالے سے ہمارے اور ان کے درمیان فرق واضح ہوگیا۔
میچ شروع ہوا تو ہم نے Pitchکو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا اور گھبرائے ہوئے اعصاب کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہوسکتی تھی کہ شاہد آفریدی پہلی وکٹ گرنے کے بعد خود میدان میں اُتر آئے۔ اپنی ٹیم کی روایتی ترتیب پر اعتبار نہ کیا۔اس کے مقابلے میں بھارتی کپتان نے آخری اوور بھی اپنے ایک کمزور دکھتے بائولر سے کرواکر خود اعتمادی کا پیغام دیا۔ تھکے ہارے اعصاب کے اس ماحول میں سمیع کو جس نے ایک کے بعد دوسری کلی اُڑائی مناسب داد بھی نہ مل پائی۔
ہم کمزور اعصاب کے ساتھ میدان میں اُترے۔ خود پر اعتماد ہوتا تو شاہد آفریدی اپنی پوری ٹیم کو Tipsلینے کے لئے عمران خان کے روبرو یوں پیش نہ کرتا جیسے پیروں سے تعویز لئے جاتے ہیں۔ کرکٹ اپنی اصل میں جو ہوا کرتی تھی عرصہ ہوا اسے ہم بھلا چکے۔ کوّا مگر ہنس کی چال بھی صحیح طریقے سے نہیں چل پارہا ہے۔ کرکٹ کے نئے چلن کے مطابق ڈھلنے کے لئے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ اس کی طرف مناسب توجہ ہی نہیں۔ قوم کو آخر کب تک دُعائیں دینے میں ہی مصروف رکھیں ؟!
نصرت جاوید

Leave a comment